کیا کیا نہ زندگی کے فسانے رقم ہوئے

کیا کیا نہ زندگی کے فسانے رقم ہوئے
لیکن جو حاصل غم دل تھے وہ کم ہوئے


اے تشنگیٔ درد کوئی غم کوئی کرم
مدت گزر گئی ہے ان آنکھوں کو نم ہوئے


ملنے کو ایک اذن تبسم تو مل گیا
کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے


دامن کا چاک چاک جگر سے نہ مل سکا
کتنی ہی بار دست و گریباں بہم ہوئے


کس کو ہے یہ خبر کہ بہ عنوان زندگی
کس حسن اہتمام سے مصلوب ہم ہوئے


ارباب عشق و اہل ہوس میں ہے فرق کیا
سب ہی تری نگاہ میں جب محترم ہوئے


شاعرؔ تمہیں پہ تنگ نہیں عرصۂ حیات
ہر اہل فن پہ دہر میں ایسے کرم ہوئے