پندار زہد ہو کہ غرور برہمنی

پندار زہد ہو کہ غرور برہمنی
اس دور بت شکن میں ہے ہر بت شکستنی


صرصر چلے کہ تند بگولوں کا رقص ہو
موج نمو رواں ہے تو ہر گل شگفتنی


گل‌‌ چین و گل فروش کی خاطر ہے فصل گل
اور قسمت جنوں ہے فقط چاک دامنی


دیوار ابر کھینچیے کرنوں کی راہ میں
ذروں میں قید کیجیئے سورج کی روشنی


موج نفس سے لرزے ہے تار رگ حیات
پھیلی ہے شہر دل میں وہ پر ہول سنسنی