Hazrat Shah

حضرت شاہ

حضرت شاہ کی غزل

    ہم دلوں کے قرب کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے

    ہم دلوں کے قرب کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے یاد رہ جائے گی یا کچھ خواب سے رہ جائیں گے اس تذبذب میں مری محنت اکارت جائے گی خود ہی وہ آ جائیں گے اور خط لکھے رہ جائیں گے ہم فصیل آب و گل میں در بنانے کے لیے وقت کے تہہ خانے میں سر پیٹتے رہ جائیں گے اپنے چہرے تکتے تکتے پھر سحر ہو جائے ...

    مزید پڑھیے

    نغموں کا شہر تھا کبھی آہوں کا شہر تھا

    نغموں کا شہر تھا کبھی آہوں کا شہر تھا یہ دل تری بدلتی نگاہوں کا شہر تھا ہم لوگ طوطا چشم مزاجاً نہ تھے مگر نظریں بدلنے والی نگاہوں کا شہر تھا کوٹھے پہ کھانستی ہوئی بڑھیا کی آنکھ میں بیمار زندگی کی کراہوں کا شہر تھا وہ دوریوں کے خوف سے گھر میں پڑا رہا ورنہ ذرا ادھر مری ہا ہوں کا ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے نکلے ہوئے بھی بہت دن ہوئے

    گھر سے نکلے ہوئے بھی بہت دن ہوئے ان کو دیکھے ہوئے بھی بہت دن ہوئے شہر خاموش ہے اس نے ہونا ہی تھا ہم کو بولے ہوئے بھی بہت دن ہوئے میں نہ گزروں گا رستوں سے گھر کے ترے گرچہ گزرے ہوئے بھی بہت دن ہوئے اچھا چہرہ کہیں کوئی دیکھا نہیں دل کو دھڑکے ہوئے بھی بہت دن ہوئے کوئی قاصد نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کھو جاتے ہیں دریا مٹی پیاسی رہ جاتی ہے

    کھو جاتے ہیں دریا مٹی پیاسی رہ جاتی ہے صدیوں رہنے والی زرد اداسی رہ جاتی ہے آنکھ کے پیچھے کیا ہوتا ہے علم نہیں ہو سکتا فنکاروں کی آخر روپ شناسی رہ جاتی ہے کھل کر اپنے عشق کا ہم نے تو اظہار کیا ہے گھٹ کر رہ جائے تو چاہت باسی رہ جاتی ہے دوپہروں کو جاگتی رہتی ہے سایوں کی صورت دن ہو ...

    مزید پڑھیے

    پھر جدا ہونے کا منظر آ گیا ہے

    پھر جدا ہونے کا منظر آ گیا ہے اور شب ہجراں مرا گھر آ گیا ہے شہر میں پھر برف باری ہو رہی ہے آ بھی جاؤ اب دسمبر آ گیا ہے سولیاں سنسان ہوتی جا رہی تھیں دار کی خاطر مرا سر آ گیا ہے کیا کہوں کیوں تیرے اندر آ گیا ہوں چار دیواری ترا در آ گیا ہے میری انگلی کو پکڑ کر میرا بچہ میرے قامت کے ...

    مزید پڑھیے