کھو جاتے ہیں دریا مٹی پیاسی رہ جاتی ہے

کھو جاتے ہیں دریا مٹی پیاسی رہ جاتی ہے
صدیوں رہنے والی زرد اداسی رہ جاتی ہے


آنکھ کے پیچھے کیا ہوتا ہے علم نہیں ہو سکتا
فنکاروں کی آخر روپ شناسی رہ جاتی ہے


کھل کر اپنے عشق کا ہم نے تو اظہار کیا ہے
گھٹ کر رہ جائے تو چاہت باسی رہ جاتی ہے


دوپہروں کو جاگتی رہتی ہے سایوں کی صورت
دن ہو جاتا ہے پر رات ذرا سی رہ جاتی ہے


سرمائے کی گردش ہے ہر وقت ضروری حضرتؔ
جوہڑ بنتا ہے جب آب نکاسی رہ جاتی ہے