نغموں کا شہر تھا کبھی آہوں کا شہر تھا
نغموں کا شہر تھا کبھی آہوں کا شہر تھا
یہ دل تری بدلتی نگاہوں کا شہر تھا
ہم لوگ طوطا چشم مزاجاً نہ تھے مگر
نظریں بدلنے والی نگاہوں کا شہر تھا
کوٹھے پہ کھانستی ہوئی بڑھیا کی آنکھ میں
بیمار زندگی کی کراہوں کا شہر تھا
وہ دوریوں کے خوف سے گھر میں پڑا رہا
ورنہ ذرا ادھر مری ہا ہوں کا شہر تھا
مریم سی برگزیدہ کسی ماں کا تھا سروپ
غربت میں پلنے والے گناہوں کا شہر تھا