ہم دلوں کے قرب کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے

ہم دلوں کے قرب کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے
یاد رہ جائے گی یا کچھ خواب سے رہ جائیں گے


اس تذبذب میں مری محنت اکارت جائے گی
خود ہی وہ آ جائیں گے اور خط لکھے رہ جائیں گے


ہم فصیل آب و گل میں در بنانے کے لیے
وقت کے تہہ خانے میں سر پیٹتے رہ جائیں گے


اپنے چہرے تکتے تکتے پھر سحر ہو جائے گی
کیا کہیں اک دوسرے کو سوچتے رہ جائیں گے


وہ مرا ہو جائے گا اے شاہؔ آخر ایک دن
سوچتا ہوں پھر بھی اس سے کچھ گلے رہ جائیں گے