گھر سے نکلے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
گھر سے نکلے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
ان کو دیکھے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
شہر خاموش ہے اس نے ہونا ہی تھا
ہم کو بولے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
میں نہ گزروں گا رستوں سے گھر کے ترے
گرچہ گزرے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
اچھا چہرہ کہیں کوئی دیکھا نہیں
دل کو دھڑکے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
کوئی قاصد نہیں کوئی صورت نہیں
خط کو لکھے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
دل کو منظور کب کوئی بدنام ہو
آنسو روکے ہوئے بھی بہت دن ہوئے
جس سمندر میں ہے شاہ کشتی مری
اس میں ڈوبے ہوئے بھی بہت دن ہوئے