Hayat Madrasi

حیات مدراسی

حیات مدراسی کی غزل

    کس کو معلوم کہ وہ لوگ کہاں رہتے ہیں

    کس کو معلوم کہ وہ لوگ کہاں رہتے ہیں تیری دھن میں جو شب و روز رواں رہتے ہیں جو فسانے سبق آموز جہاں رہتے ہیں تا دم مرگ وہی ورد زباں رہتے ہیں تلخئ غم ہی سہی تلخیٔ ایام سہی گامزن ہم بہ رہ زندہ دلاں رہتے ہیں بے زبانی پہ نہ جا اپنی کہ مجذوب سہی خود فراموش حقیقت نگراں رہتے ہیں تیری ...

    مزید پڑھیے

    خرد کی چھاؤں میں نیند آ رہی ہے

    خرد کی چھاؤں میں نیند آ رہی ہے کہاں غیرت جنوں کی کھو گئی ہے مجھے تیرے تصور نے سنبھالا جہاں بھی گردش دوراں ملی ہے ہوئی مدت جلا تھا آشیانہ نگاہوں میں ابھی تک روشنی ہے جہاں وہ چلتے چلتے رک گئے ہیں وہاں گردش فلک کی تھم گئی ہے مرے اشکوں کی تابانی سے ہمدم شب فرقت کی ظلمت کانپتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2