کس کو معلوم کہ وہ لوگ کہاں رہتے ہیں

کس کو معلوم کہ وہ لوگ کہاں رہتے ہیں
تیری دھن میں جو شب و روز رواں رہتے ہیں


جو فسانے سبق آموز جہاں رہتے ہیں
تا دم مرگ وہی ورد زباں رہتے ہیں


تلخئ غم ہی سہی تلخیٔ ایام سہی
گامزن ہم بہ رہ زندہ دلاں رہتے ہیں


بے زبانی پہ نہ جا اپنی کہ مجذوب سہی
خود فراموش حقیقت نگراں رہتے ہیں


تیری محفل میں چراغوں کی ضرورت کیا ہے
غم کے شعلے تو سر شام جواں رہتے ہیں


موسم گل میں بھی ہم اہل جنوں زنداں میں
بے نیاز خبر سود و زیاں رہتے ہیں