Havi Momin Abadi

حاوی مومن آبادی

حاوی مومن آبادی کی غزل

    تیرے یہ جاں نثار و طلبگار دیکھ کر

    تیرے یہ جاں نثار و طلبگار دیکھ کر حیراں ہوں ایک انار سو بیمار دیکھ کر گل پھول آب آب ہوئے کل چمن کے بیچ گل کے ہمارے آتشیں رخسار دیکھ کر سدرہ سرو صنوبر و طوبیٰ کھڑے کھڑے سرگشتہ ہیں چمن میں قد یار دیکھ کر پیروں میں دل زدوں کے نہ چبھ جائیں استخواں اس راہ سے گزر ہو تو سرکار دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    آپ کے در سے کدھر جائیں گے

    آپ کے در سے کدھر جائیں گے خاک ہو جائیں گے مر جائیں گے مت نگاہوں سے گرانا ہم کو ٹوٹ جائیں گے بکھر جائیں گے یا پگھل جائیں گے گرمی سے آہ یا تو سردی سے ٹھٹھر جائیں گے موٹی موٹی سی دکھا کر آنکھیں وہ سمجھتے ہیں کہ ڈر جائیں گے عشق نے اور بگاڑا یارو ورنہ سمجھے تھے سدھر جائیں گے میرے ...

    مزید پڑھیے

    کن خیالوں میں تو دلبر پڑا ہے

    کن خیالوں میں تو دلبر پڑا ہے ایک سے ایک یہاں پر پڑا ہے میں وہ درویش ہوں جس کا زمانے سطح افلاک پہ بستر پڑا ہے آسماں کی یہ بلندی نہیں کچھ آسماں تو مرے سر پر پڑا ہے ایک ناداں سے صنم کی گلی میں ایک استاد ہنر ور پڑا ہے میرؔ کہتے تھے جسے سنگ گراں میرے دل پر وہی پتھر پڑا ہے دھوپ میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2