دکھ درد غم ہیں تیری عنایات زندگی
دکھ درد غم ہیں تیری عنایات زندگی
تو نے نبھائیں خوب روایات زندگی
اک تو نیاز مند سراپا میں بے نیاز
ملتے نہیں ہیں اپنے خیالات زندگی
فطرت میں آدمی کے تغیر نہیں مگر
انسان کو بدلتے ہیں حالات زندگی
ملتے رہے ہیں سارے زمانے سے عمر بھر
تجھ سے نہ جانے کب ہو ملاقات زندگی
دونوں کے بیچ کوئی تعلق نہیں ہے خاص
جینا ہے اور چیز الگ بات زندگی
آرام سے گزارتی کچھ دن حیات کے
سنتی کبھی جو تو بھی مری بات زندگی
ہے مستعار تار نفس سے ترا وجود
اس سے زیادہ کیا تری اوقات زندگی
سانسوں کے واسطے کرے دست طلب دراز
ہر روز مجھ سے مانگے ہے خیرات زندگی
اوروں کے واسطے ہے مجسم تکلفات
عاقبؔ ترے لیے ہے خرافات زندگی