کچھ سلسلے فلک کے پڑے ہیں اجاڑ سے

کچھ سلسلے فلک کے پڑے ہیں اجاڑ سے
رشتے بنے ہوئے ہیں زمین کے پہاڑ سے


بے جرم بے گناہ اسیروں کی خیر ہو
آتی ہیں دم بدم یہ صدائیں تہاڑ سے


بدنام ہوتا ہے وہ جو آگے دکھائی دے
جلوہ دکھاتا اور ہی کوئی ہے آڑ سے


تم تو چلے گئے مری دنیا کو چھوڑ کر
لگ کر کھڑا ہے کون یہ دل کے کواڑ سے


آندھی چلے کبھی تو سلامت رہو گے نا
پودے نے سر اٹھا کے یہ پوچھا ہے جھاڑ سے


بے فیض سربلندی کے قائل نہیں ہیں ہم
ملتا نہیں ہے سایہ مسافر کو تاڑ سے


کتنے عجیب لوگ ہیں عاقبؔ تمہارے ساتھ
ہیروں سے بیر عشق ہے جن کو کباڑ سے