انتباہ
اس رات لمس ماہ سے اک بیج میرے خون میں بیدار ہو گیا رگ رگ میں برگ و شاخ تناور شجر بنا ویرانۂ تپاں سے گزرتی ہے جب ہوا نوکیلے نیلے پتوں سے ٹپ ٹپ دمکتے زہر کی بوندیں ٹپکتی ہیں حذر کرو
معتبر نقاد اور دانشور
اس رات لمس ماہ سے اک بیج میرے خون میں بیدار ہو گیا رگ رگ میں برگ و شاخ تناور شجر بنا ویرانۂ تپاں سے گزرتی ہے جب ہوا نوکیلے نیلے پتوں سے ٹپ ٹپ دمکتے زہر کی بوندیں ٹپکتی ہیں حذر کرو
اک کانٹا دل کو ڈستا تھا موت سے پہلے ہی اس نے ہوش میں آ کر بچوں سے کیوں نظریں پھیریں برسوں بعد سپید لبادہ اوڑھے آئی بولی میں نے جیتے جی پل پل رشتوں کے کرب کو جھیلا ہے! موت آزادی کی راحت ہے! موت سے پہلے ہی مرنے کا ادراک ہوا
پہلی چیخ تولد ہونے کی چرخے سے الجھی امی کے بالوں کی سپیدی ہونٹوں پر لرزاں حرف شہادت ریت کے جھکڑ میں بکھرتے تتلی کے رنگ قبروں میں گرتے انبوہ کواکب پیچھا کرتے ہیں! اس دن جھیل کے آئینے میں اپنے جسم کو دیکھا تھا اب ہر ملبوس میں عریاں ہونے کی لاچاری ہے میں خود سے ہی بھاگ رہا ہوں مجھ ...
ہم دونوں تتلی کے تعاقب میں دور مہکتے خوابیدہ سایوں میں ڈوبے تتلی ہاتھ سے نکلی تھی جنگل جاگ پڑا تھا پتوں کی اوٹ سے شعلہ شعلہ آنکھیں جھانک رہی تھیں! سب رستے مسدود ہوئے تھے!
اس نے بوجھل نیلی پلکیں کھولیں بیٹے کب تک جاگو گے؟ بہتے آنسو رک سے گئے! سب امیدانہ نظروں سے تکنے لگے میں نے تلاوت روک کے نورانی چہرے کو دیکھا اس نے آہستہ سے آنکھیں موندیں! اس پل سے میں جاگ رہا ہوں