Hamidi Kashmiri

حامدی کاشمیری

معتبر نقاد اور دانشور

حامدی کاشمیری کی نظم

    انتباہ

    اس رات لمس ماہ سے اک بیج میرے خون میں بیدار ہو گیا رگ رگ میں برگ و شاخ تناور شجر بنا ویرانۂ تپاں سے گزرتی ہے جب ہوا نوکیلے نیلے پتوں سے ٹپ ٹپ دمکتے زہر کی بوندیں ٹپکتی ہیں حذر کرو

    مزید پڑھیے

    ادراک

    اک کانٹا دل کو ڈستا تھا موت سے پہلے ہی اس نے ہوش میں آ کر بچوں سے کیوں نظریں پھیریں برسوں بعد سپید لبادہ اوڑھے آئی بولی میں نے جیتے جی پل پل رشتوں کے کرب کو جھیلا ہے! موت آزادی کی راحت ہے! موت سے پہلے ہی مرنے کا ادراک ہوا

    مزید پڑھیے

    رستگاری

    پہلی چیخ تولد ہونے کی چرخے سے الجھی امی کے بالوں کی سپیدی ہونٹوں پر لرزاں حرف شہادت ریت کے جھکڑ میں بکھرتے تتلی کے رنگ قبروں میں گرتے انبوہ کواکب پیچھا کرتے ہیں! اس دن جھیل کے آئینے میں اپنے جسم کو دیکھا تھا اب ہر ملبوس میں عریاں ہونے کی لاچاری ہے میں خود سے ہی بھاگ رہا ہوں مجھ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں

    ہم دونوں تتلی کے تعاقب میں دور مہکتے خوابیدہ سایوں میں ڈوبے تتلی ہاتھ سے نکلی تھی جنگل جاگ پڑا تھا پتوں کی اوٹ سے شعلہ شعلہ آنکھیں جھانک رہی تھیں! سب رستے مسدود ہوئے تھے!

    مزید پڑھیے

    اس پل سے

    اس نے بوجھل نیلی پلکیں کھولیں بیٹے کب تک جاگو گے؟ بہتے آنسو رک سے گئے! سب امیدانہ نظروں سے تکنے لگے میں نے تلاوت روک کے نورانی چہرے کو دیکھا اس نے آہستہ سے آنکھیں موندیں! اس پل سے میں جاگ رہا ہوں

    مزید پڑھیے