Hamidi Kashmiri

حامدی کاشمیری

معتبر نقاد اور دانشور

حامدی کاشمیری کی غزل

    آئے مشرق سے شہسوار بہت

    آئے مشرق سے شہسوار بہت کس کو تھا ان کا انتظار بہت قافلوں کی کوئی خبر سی نہیں دور اٹھتا رہا غبار بہت صبح ہونے تک اس نے جان نہ دی عمر بھر تھا خود اختیار بہت پھر کوئی سانحہ ہوا ہوگا مہرباں کیوں ہیں غم گسار بہت کیوں ہے ہر ذرہ کربلا منظر ہے ہمیں ان پہ اعتبار بہت ہو گئی سب کے آگے ...

    مزید پڑھیے

    ہم کہاں کنج نشینوں میں رہے

    ہم کہاں کنج نشینوں میں رہے آسمانوں میں زمینوں میں رہے راہیں بے وجہ منور نہ ہوئیں رات خورشید جبینوں میں رہے تھا فلک گیر تلاطم شب کا ہم ستاروں کے سفینوں میں رہے جسم سے سانپ نکل آتے ہیں ایک دو پل ہی دفینوں میں رہے تم کو اصرار ہے خالی یہ مکاں ہم شب و روز مکینوں میں رہے سبز دائم ...

    مزید پڑھیے

    شناسائے حقیقت ہو گئے ہیں

    شناسائے حقیقت ہو گئے ہیں وہ سب تصویر عبرت ہو گئے ہیں دکھاتے ہیں وہ رستہ قافلوں کو جو محروم بصارت ہو گئے ہیں فصیل شہر کے اندر نہ جانا وہ سارے گرگ صورت ہو گئے ہیں فروزاں ہیں بلاوے ساحلوں کے اسیر موج ظلمت ہو گئے ہیں جبینوں پر رقم آیات شفقت قتیل تیغ نفرت ہو گئے ہیں

    مزید پڑھیے

    لیل شب تاب چٹانوں میں نہیں

    لیل شب تاب چٹانوں میں نہیں کوئی مفہوم فسانوں میں نہیں پھر نہ شب خون کا وقت آئے گا روشنی ان کے ٹھکانوں میں نہیں ہے تماشائیوں کا جم غفیر عکس بھی آئینہ خانوں میں نہیں اپنے ہی سائے کی پھنکار نہ ہو کوئی شہ مار خزانوں میں نہیں کو بہ کو دیتے ہیں آواز کسے سایہ بھی خالی مکانوں میں ...

    مزید پڑھیے

    خود ہی بے آسرا کرتے ہیں

    خود ہی بے آسرا کرتے ہیں ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کرتے ہیں رات بھر پیڑ چپ بھی رہتے ہیں دل میں محشر بپا بھی کرتے ہیں چھین لیتے نہیں بصارت ہی وہ تو بے دست و پا بھی کرتے ہیں کوئی پہچان ہو نہیں پاتی پردے کیا کیا اٹھا بھی کرتے ہیں آتے ہی سر قلم نہیں کرتے پہلے خود آشنا بھی کرتے ہیں وار ...

    مزید پڑھیے

    شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت

    شام سے زوروں پہ طوفاں ہے بہت اس کے لوٹ آنے کا امکاں ہے بہت آئے گی نور مجسم بن کر صورت سایہ گریزاں ہے بہت کچھ بھی ہوں موج و ہوا کے تیور جسم پروردۂ طوفاں ہے بہت شاید آ پہنچے ہیں وہ اسپ سوار شہر کا شہر ہراساں ہے بہت جسم و جاں ورطۂ ظلمت ہی سہی پیکر حرف درخشاں ہے بہت زیر فرماں رہے ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ شوق کیوں مائل نہیں ہے

    نگاہ شوق کیوں مائل نہیں ہے کوئی دیوار اب حائل نہیں ہے سحر دم ہی گھروں سے چل پڑے سب کوئی جادہ کوئی منزل نہیں ہے سبھی کی نظریں ہیں کشتی کے رخ پر مگر اس بحر کا ساحل نہیں ہے کریں کس سے توقع منصفی کی کوئی ایسا ہے جو قاتل نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    یک بہ یک کیوں بند دروازے ہوئے

    یک بہ یک کیوں بند دروازے ہوئے تھے وہ آیات مبیں اوڑھے ہوئے بحر ظلمت کا سفر در پیش ہے ہیں ہوا میں بال و پر جلتے ہوئے بند کمروں سے نکلتے ہی نہیں اے ہوا کیا تیرے منصوبے ہوئے آب و سایہ ایک دھوکا ہی سہی اس سے پہلے بھی کئی دھوکے ہوئے برق تھی موسم شگوفوں کا نہ تھا شیشے کی سڑکوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو مرنے کی کوئی عجلت نہ تھی

    مجھ کو مرنے کی کوئی عجلت نہ تھی خود سے ملنے کی کوئی صورت نہ تھی دیکھتے کیا حسن کی نیرنگیاں آنکھ جھپکانے کی بھی فرصت نہ تھی خودبخود یہ زخم لو دینے لگے مجھ کو کوئی حاجت شہرت نہ تھی اٹھ رہا ہے دل سے آہوں کا دھواں محفل شب محفل عشرت نہ تھی پیڑ پتے جل کے خاکستر ہوئے دوستو وہ بارش ...

    مزید پڑھیے

    چاند کہرے کے جزیروں میں بھٹکتا ہوگا

    چاند کہرے کے جزیروں میں بھٹکتا ہوگا رقص گاہ میں تو نے ملبوس اتارا ہوگا یک بہ یک چیخ اٹھے چار دشاؤں کا سکوت زرد دن میں کبھی ایسا ہو تو پھر کیا ہوگا تھے وہ درماندۂ شب جاگ کے پھر سوتے تھے شہر ظلمات ہے کب اس میں سویرا ہوگا آنکھ کے کالے گڑھوں میں وہ گرفتار تھے سب کس نے گرتے ہوؤں کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2