Hamidi Kashmiri

حامدی کاشمیری

معتبر نقاد اور دانشور

حامدی کاشمیری کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    آئے مشرق سے شہسوار بہت

    آئے مشرق سے شہسوار بہت کس کو تھا ان کا انتظار بہت قافلوں کی کوئی خبر سی نہیں دور اٹھتا رہا غبار بہت صبح ہونے تک اس نے جان نہ دی عمر بھر تھا خود اختیار بہت پھر کوئی سانحہ ہوا ہوگا مہرباں کیوں ہیں غم گسار بہت کیوں ہے ہر ذرہ کربلا منظر ہے ہمیں ان پہ اعتبار بہت ہو گئی سب کے آگے ...

    مزید پڑھیے

    ہم کہاں کنج نشینوں میں رہے

    ہم کہاں کنج نشینوں میں رہے آسمانوں میں زمینوں میں رہے راہیں بے وجہ منور نہ ہوئیں رات خورشید جبینوں میں رہے تھا فلک گیر تلاطم شب کا ہم ستاروں کے سفینوں میں رہے جسم سے سانپ نکل آتے ہیں ایک دو پل ہی دفینوں میں رہے تم کو اصرار ہے خالی یہ مکاں ہم شب و روز مکینوں میں رہے سبز دائم ...

    مزید پڑھیے

    شناسائے حقیقت ہو گئے ہیں

    شناسائے حقیقت ہو گئے ہیں وہ سب تصویر عبرت ہو گئے ہیں دکھاتے ہیں وہ رستہ قافلوں کو جو محروم بصارت ہو گئے ہیں فصیل شہر کے اندر نہ جانا وہ سارے گرگ صورت ہو گئے ہیں فروزاں ہیں بلاوے ساحلوں کے اسیر موج ظلمت ہو گئے ہیں جبینوں پر رقم آیات شفقت قتیل تیغ نفرت ہو گئے ہیں

    مزید پڑھیے

    لیل شب تاب چٹانوں میں نہیں

    لیل شب تاب چٹانوں میں نہیں کوئی مفہوم فسانوں میں نہیں پھر نہ شب خون کا وقت آئے گا روشنی ان کے ٹھکانوں میں نہیں ہے تماشائیوں کا جم غفیر عکس بھی آئینہ خانوں میں نہیں اپنے ہی سائے کی پھنکار نہ ہو کوئی شہ مار خزانوں میں نہیں کو بہ کو دیتے ہیں آواز کسے سایہ بھی خالی مکانوں میں ...

    مزید پڑھیے

    خود ہی بے آسرا کرتے ہیں

    خود ہی بے آسرا کرتے ہیں ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کرتے ہیں رات بھر پیڑ چپ بھی رہتے ہیں دل میں محشر بپا بھی کرتے ہیں چھین لیتے نہیں بصارت ہی وہ تو بے دست و پا بھی کرتے ہیں کوئی پہچان ہو نہیں پاتی پردے کیا کیا اٹھا بھی کرتے ہیں آتے ہی سر قلم نہیں کرتے پہلے خود آشنا بھی کرتے ہیں وار ...

    مزید پڑھیے

تمام

5 نظم (Nazm)

    انتباہ

    اس رات لمس ماہ سے اک بیج میرے خون میں بیدار ہو گیا رگ رگ میں برگ و شاخ تناور شجر بنا ویرانۂ تپاں سے گزرتی ہے جب ہوا نوکیلے نیلے پتوں سے ٹپ ٹپ دمکتے زہر کی بوندیں ٹپکتی ہیں حذر کرو

    مزید پڑھیے

    ادراک

    اک کانٹا دل کو ڈستا تھا موت سے پہلے ہی اس نے ہوش میں آ کر بچوں سے کیوں نظریں پھیریں برسوں بعد سپید لبادہ اوڑھے آئی بولی میں نے جیتے جی پل پل رشتوں کے کرب کو جھیلا ہے! موت آزادی کی راحت ہے! موت سے پہلے ہی مرنے کا ادراک ہوا

    مزید پڑھیے

    رستگاری

    پہلی چیخ تولد ہونے کی چرخے سے الجھی امی کے بالوں کی سپیدی ہونٹوں پر لرزاں حرف شہادت ریت کے جھکڑ میں بکھرتے تتلی کے رنگ قبروں میں گرتے انبوہ کواکب پیچھا کرتے ہیں! اس دن جھیل کے آئینے میں اپنے جسم کو دیکھا تھا اب ہر ملبوس میں عریاں ہونے کی لاچاری ہے میں خود سے ہی بھاگ رہا ہوں مجھ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں

    ہم دونوں تتلی کے تعاقب میں دور مہکتے خوابیدہ سایوں میں ڈوبے تتلی ہاتھ سے نکلی تھی جنگل جاگ پڑا تھا پتوں کی اوٹ سے شعلہ شعلہ آنکھیں جھانک رہی تھیں! سب رستے مسدود ہوئے تھے!

    مزید پڑھیے

    اس پل سے

    اس نے بوجھل نیلی پلکیں کھولیں بیٹے کب تک جاگو گے؟ بہتے آنسو رک سے گئے! سب امیدانہ نظروں سے تکنے لگے میں نے تلاوت روک کے نورانی چہرے کو دیکھا اس نے آہستہ سے آنکھیں موندیں! اس پل سے میں جاگ رہا ہوں

    مزید پڑھیے