خود اپنے آپ سے ملنے کا میں اپنا ارادہ ہوں

خود اپنے آپ سے ملنے کا میں اپنا ارادہ ہوں
میں ہر موسم کو سہہ کر بھی ابھی تک ایستادہ ہوں


ازل سے ماورا رنگوں سے ہوں یہ میرا دعویٰ ہے
اساس رنگ پر جانچو نہ مجھ کو نقش سادہ ہوں


ترا سایہ ہے آئینہ چمکتے آفتابوں کا
میں اپنے جسم میں بے پیکری کا اک لبادہ ہوں


مجھے حیرت، میں اک نقطے کی صورت کس طرح سمٹا
خلا ہے آنکھ میری میں سمندر سے کشادہ ہوں


مجھے لگتی ہے دنیا ایک ٹھوکر اپنے پاؤں کی
میں جانے کیسی اجڑی سلطنت کا شاہزادہ ہوں


مجھے لگتے ہیں خوش سب سیب صورت آج بھی منظورؔ
کہ میں اپنے کسی عہد شکستہ کا اعادہ ہوں