Gulzar Moradabadi

گلزار مرادآبادی

گلزار مرادآبادی کی غزل

    جھلک ذرا سی دکھا کر کہیں کھو جاتی ہے

    جھلک ذرا سی دکھا کر کہیں کھو جاتی ہے غنودگی کا وہ اک بیج یوں بو جاتی ہے گمان سے مرے باہر ہے ماں کی قربانی کہ بچوں کو کھلا کر بھوکی خود سو جاتی ہے ضرورتیں کسی کو مت بتا بجز رب کے واں آبرو نہیں جاتی مدد ہو جاتی ہے کبھی تو عشق الٰہی میں آنکھ نم ہو یہ سنا ہے عشق ہو سچا تو یہ رو جاتی ...

    مزید پڑھیے

    مال و دولت پر اے انساں اتنا کیوں اتراتا ہے

    مال و دولت پر اے انساں اتنا کیوں اتراتا ہے بھول کر مسکینوں کو مغرور کیوں بن جاتا ہے حال دل اپنا سنائیں تو سنائیں کیسے ہم روبرو ہو کر بھی وہ ہم سے بڑا شرماتا ہے رہتے ہیں مایوس جو معلوم کر لیں وہ ذرا کہتے ہیں مایوس رہنا کفر تک لے جاتا ہے لوہا تپ کر آگ میں جب سرخ سا ہو جاتا ہے بن کے ...

    مزید پڑھیے

    ہے ناراض وہ تو ملاقات تو کر

    ہے ناراض وہ تو ملاقات تو کر جوابات دے کچھ سوالات تو کر خطا‌ وار ہیں ہم سزاوار بھی ہیں تو بس در گزر کر مسافات تو کر ہے پر لغزشوں سے کہانی ہماری تو ستار ہے کچھ کرامات تو کر یوں تو زندگی گزری گمراہی میں پر گماں نیک رکھ تو شروعات تو کر ہے امید پر دنیا قائم اے گلزارؔ منا لے اسے تو ...

    مزید پڑھیے

    ارے خدا کے بندے خود کو رب کی سمت موڑ تو

    ارے خدا کے بندے خود کو رب کی سمت موڑ تو وجود بخشا جس نے تجھ کو رشتہ اس سے جوڑ تو بڑی ہی سہل و آساں زندگی ہو جائے گی تری تو اتباع خواہشات زندگی کو چھوڑ تو جو لمبے لمبے خواب دیکھ رکھے ہیں بھرم ہے محض ہے عقل مند تو اگر تو اس بھرم کو توڑ تو ہے مدتوں سے تیرے انتظار میں بھی اک ...

    مزید پڑھیے