مال و دولت پر اے انساں اتنا کیوں اتراتا ہے
مال و دولت پر اے انساں اتنا کیوں اتراتا ہے
بھول کر مسکینوں کو مغرور کیوں بن جاتا ہے
حال دل اپنا سنائیں تو سنائیں کیسے ہم
روبرو ہو کر بھی وہ ہم سے بڑا شرماتا ہے
رہتے ہیں مایوس جو معلوم کر لیں وہ ذرا
کہتے ہیں مایوس رہنا کفر تک لے جاتا ہے
لوہا تپ کر آگ میں جب سرخ سا ہو جاتا ہے
بن کے وہ تلوار پھر ظالم سے جا ٹکراتا ہے
ایک جیسا وقت کس کا رہتا ہے گلزارؔ یاں
وقت تو اچھا برا سب ہی پر آتا جاتا ہے