جھلک ذرا سی دکھا کر کہیں کھو جاتی ہے
جھلک ذرا سی دکھا کر کہیں کھو جاتی ہے
غنودگی کا وہ اک بیج یوں بو جاتی ہے
گمان سے مرے باہر ہے ماں کی قربانی
کہ بچوں کو کھلا کر بھوکی خود سو جاتی ہے
ضرورتیں کسی کو مت بتا بجز رب کے
واں آبرو نہیں جاتی مدد ہو جاتی ہے
کبھی تو عشق الٰہی میں آنکھ نم ہو یہ
سنا ہے عشق ہو سچا تو یہ رو جاتی ہے
واں موسیٰ برق تجلی نہ کر سکے برداشت
یاں آقا کو مرے معراج تک ہو جاتی ہے