ہے ناراض وہ تو ملاقات تو کر

ہے ناراض وہ تو ملاقات تو کر
جوابات دے کچھ سوالات تو کر


خطا‌ وار ہیں ہم سزاوار بھی ہیں
تو بس در گزر کر مسافات تو کر


ہے پر لغزشوں سے کہانی ہماری
تو ستار ہے کچھ کرامات تو کر


یوں تو زندگی گزری گمراہی میں پر
گماں نیک رکھ تو شروعات تو کر


ہے امید پر دنیا قائم اے گلزارؔ
منا لے اسے تو مناجات تو کر