Gulam Rasool Ashraf

غلام رسول اشرف

  • 1948

غلام رسول اشرف کی غزل

    جتنی سچی مری کہانی ہے

    جتنی سچی مری کہانی ہے سب کو اتنی ہی بد گمانی ہے لاپتہ ہے بہار برسوں سے معتبر پھر بھی باغبانی ہے آگ کھلنے لگی ہے شاخوں پر جانے یہ کس کی گل فشانی ہے سارے کردار اس کے زخمی ہیں عہد نو کی عجب کہانی ہے ظلم آزاد بے گناہی قید خوب انداز حکمرانی ہے

    مزید پڑھیے

    دلوں میں رنجشیں ہیں

    دلوں میں رنجشیں ہیں یہ کس کی سازشیں ہیں میں پھر بھی ڈر رہا ہوں خبر ہے بخششیں ہیں اگر دل آئنہ ہو بہت گنجائشیں ہیں بڑھی جاتی ہے سوزش یہ کیسی بارشیں ہیں فلک کیا چاہتا ہے مسلسل گردشیں ہیں

    مزید پڑھیے

    جب خود ہی احتیاط کی سرحد سے دور تھا

    جب خود ہی احتیاط کی سرحد سے دور تھا کیسے کروں گلہ کہ میں زخموں سے چور تھا میں نے ہی راستے سے ہٹائے تھے سارے خار میں نے یہ کب کہا ہے کہ میں بے قصور تھا ممکن نہیں تھا دوستو اپنا محاصرہ درباریوں میں کوئی تو مخبر ضرور تھا دریائے حادثات کی موجیں شدید تھیں آواز میں نے دی تھی مگر وہ ...

    مزید پڑھیے

    سر پر ہے سائبان نہ تن پر لباس ہے

    سر پر ہے سائبان نہ تن پر لباس ہے اک سکۂ خلوص ہی لے دے کے پاس ہے جائیں بھی اپنے زخم لیے کس کے پاس ہم مرہم منافقت کا یاں سب کے پاس ہے نفرت کی آگ پھیلنے پائے نہ دوستو بارود ہے کہیں تو کہیں پر کپاس ہے دیدہ وری کے زعم میں سب محو خواب ہیں شاید یہی سبب ہے کہ نرگس اداس ہے آتا نہیں یقین کہ ...

    مزید پڑھیے

    کھو جائے گا وجود بکھر کر فضاؤں میں

    کھو جائے گا وجود بکھر کر فضاؤں میں کب تک اڑے گا زخمی پرندہ ہواؤں میں شہروں کی بھیڑ نے تو بصارت ہی چھین لی تصویر اپنی دیکھیں گے چل کر گپھاؤں میں فکروں کے دائروں سے نکلنا محال ہے جاؤ بساؤ شوق سے دنیا خلاؤں میں ایسی گھٹن تو پہلے کبھی بھی نہ تھی یہاں یہ کس نے زہر گھول دیا ہے ہواؤں ...

    مزید پڑھیے