سر پر ہے سائبان نہ تن پر لباس ہے

سر پر ہے سائبان نہ تن پر لباس ہے
اک سکۂ خلوص ہی لے دے کے پاس ہے


جائیں بھی اپنے زخم لیے کس کے پاس ہم
مرہم منافقت کا یاں سب کے پاس ہے


نفرت کی آگ پھیلنے پائے نہ دوستو
بارود ہے کہیں تو کہیں پر کپاس ہے


دیدہ وری کے زعم میں سب محو خواب ہیں
شاید یہی سبب ہے کہ نرگس اداس ہے


آتا نہیں یقین کہ تم اس صدی میں ہو
اشرفؔ تمہارے لہجے میں اب تک مٹھاس ہے