جب خود ہی احتیاط کی سرحد سے دور تھا

جب خود ہی احتیاط کی سرحد سے دور تھا
کیسے کروں گلہ کہ میں زخموں سے چور تھا


میں نے ہی راستے سے ہٹائے تھے سارے خار
میں نے یہ کب کہا ہے کہ میں بے قصور تھا


ممکن نہیں تھا دوستو اپنا محاصرہ
درباریوں میں کوئی تو مخبر ضرور تھا


دریائے حادثات کی موجیں شدید تھیں
آواز میں نے دی تھی مگر وہ بھی دور تھا


کیوں کر امیر شہر کے تم ہم نوا ہوئے
اشرفؔ تمہیں تو اچھے برے کا شعور تھا