Gitesh Dube Geet

گیتیش دبے گیت

گیتیش دبے گیت کی غزل

    خواب ٹوٹا سحر کے ہوتے ہی

    خواب ٹوٹا سحر کے ہوتے ہی رہ گئے ہم یوں ہاتھ ملتے ہی اب کے سیلاب بھی بہے شاید ابر برسیں گے یاد کرتے ہی بارہا دل کو صاف کر دیکھا پھر سے ابھرا ہے عکس دھلتے ہی بن گیا ہے چمن وہ صحرا اب اس کے بوسوں کے لمس ملتے ہی گیت اب حرف سب بنے موتی آنسوؤں کے غزل میں ڈھلتے ہی

    مزید پڑھیے

    یہاں دیکھوں وہاں دیکھوں جہاں دیکھوں میں کیا دیکھوں

    یہاں دیکھوں وہاں دیکھوں جہاں دیکھوں میں کیا دیکھوں کبھی خود میں تجھے دیکھوں کبھی تجھ میں خدا دیکھوں غرض خود سے نہیں کوئی نہ چاہت ہے زمانے کی کہاں ہستی مری پھر جو تجھے خود سے جدا دیکھوں محبت کی نظر میں یار لکھی ہو محبت بس کبھی دیکھوں میں خود کو تو کبھی اس کی وفا دیکھوں نئی منزل ...

    مزید پڑھیے

    پی کر شراب بزم میں پھر آئیے ذرا

    پی کر شراب بزم میں پھر آئیے ذرا ہے مے کشی میں ہوش بھی بتلائیے ذرا یوں پڑھ رکھے ہیں ہم نے تو کتنے ہی فیصلے دل کی عبارتوں کو بھی پڑھوائیے ذرا مجھ سا نہیں ملے گا تمہیں یار پھر کہیں چاہیں تو گھوم کر یہ جہاں آئیے ذرا اچھی نہیں ہے بے رخی مجھ سے یوں آپ کی آ کر قریب سے ہی گزر جائیے ...

    مزید پڑھیے

    یہ محبت بھی اک سزا تو ہے

    یہ محبت بھی اک سزا تو ہے دل معصوم کی خطا تو ہے شکر ہے گھر میں آئینہ تو ہے گفتگو کے لئے خلا تو ہے عشق کے آسماں پہ جا پہنچا لگ گئی ہے اسے ہوا تو ہے زخم مل بھی گئے تو کیا غم ہے تیرا ہونا بھی اک دوا تو ہے جب لبوں پر ہنسی نمایاں ہو سمجھو پیچھے کوئی دعا تو ہے فاصلے یوں نہیں ہوا ...

    مزید پڑھیے

    جدھر دیکھتا ہوں نظارہ ترا ہے

    جدھر دیکھتا ہوں نظارہ ترا ہے اثر بندگی کا ہے یا معجزہ ہے ورق زندگی کے پلٹتے ہیں جب جب میں حیرت سے دیکھوں کہ کیا کیا لکھا ہے یہ موجیں یہ ساحل یہ کشتی یہ دریا نہ جانے کہاں ناخدا لاپتہ ہے وہی موڑ ہیں اور وہی رہ گزر بھی غضب یہ ہے کہ ہر مسافر نیا ہے لگاتے رہو لاکھ چہرے پہ چہرے مگر ...

    مزید پڑھیے

    کاش مجھ سے بھی روشنی نکلے

    کاش مجھ سے بھی روشنی نکلے میرے دامن سے کچھ کمی نکلے عاشقی ہو یا بندگی کے پل اپنے لہجے سے شاعری نکلے یوں بھی ہوتا ہے درد کی حد میں زرد آنکھوں سے کچھ نمی نکلے بات کچھ تلخ ہو یا میٹھی سی اس زباں سے سہی سہی نکلے سامنے آپ ہوں یہی خواہش جسم سے جان جب کبھی نکلے صرف مسکان دل تلک ...

    مزید پڑھیے

    وہ دوشیزہ مہک جب سے اڑی ہے

    وہ دوشیزہ مہک جب سے اڑی ہے فضاؤں میں محبت گھل گئی ہے اثر اس کی کسی جنبش کا ہے یہ جو ہر ذرے میں پھیلی روشنی ہے نہیں ہے جس جگہ تہذیب کا رنگ وہاں بس تیرگی ہی تیرگی ہے کہ ہم جھوٹے کو سچا مان بیٹھے یہ لفاظی کی ہی جادوگری ہے کہاں ہوتا کبھی کوئی مکمل سبھی میں کچھ نہ کچھ یارو کمی ...

    مزید پڑھیے