کاش مجھ سے بھی روشنی نکلے
کاش مجھ سے بھی روشنی نکلے
میرے دامن سے کچھ کمی نکلے
عاشقی ہو یا بندگی کے پل
اپنے لہجے سے شاعری نکلے
یوں بھی ہوتا ہے درد کی حد میں
زرد آنکھوں سے کچھ نمی نکلے
بات کچھ تلخ ہو یا میٹھی سی
اس زباں سے سہی سہی نکلے
سامنے آپ ہوں یہی خواہش
جسم سے جان جب کبھی نکلے
صرف مسکان دل تلک اتری
لفظ ان کے تو کاغذی نکلے