Ghulam Murtaza Rahi

غلام مرتضی راہی

غلام مرتضی راہی کی غزل

    نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں

    نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں لیکن میں ان کے چند خریدار میں نہیں چھو کر بلندیوں کو پلٹنا ہے اب مجھے کھانے کو میرے گھاس بھی کہسار میں نہیں آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں ہیں جنبش تک اس کے پردۂ اسرار میں ...

    مزید پڑھیے

    فراخ دست کا یہ حسن تنگ دستی ہے

    فراخ دست کا یہ حسن تنگ دستی ہے جو ایک بوند کی مانند بحر ہستی ہے وہ جس کو ناپئے تو ٹھہرتی نہیں ہے کہیں اسی زمین پہ کل کائنات بستی ہے گھٹا تو جھوم کے آتی ہے آئے دن لیکن جہاں برسنا ہو کم کم وہاں برستی ہے زمین کرتی ہے مجھ کو اشارۂ پرواز مری تمام بلندی رہین پستی ہے اب اور دیر نہ کر ...

    مزید پڑھیے

    جھلکتی ہے مری آنکھوں میں بیداری سی کوئی

    جھلکتی ہے مری آنکھوں میں بیداری سی کوئی دبی ہے جیسے خاکستر میں چنگاری سی کوئی تڑپتا تلملاتا رہتا ہوں دریا کی مانند پڑی ہے ضرب احساسات پر کاری سی کوئی نہ جانے قید میں ہوں یا حفاظت میں کسی کی کھنچی ہے ہر طرف اک چار دیواری سی کوئی کسی بھی موڑ سے میرا گزر مشکل نہیں ہے مرے پیروں ...

    مزید پڑھیے

    میرے لب تک جو نہ آئی وہ دعا کیسی تھی

    میرے لب تک جو نہ آئی وہ دعا کیسی تھی جانے اس راہ میں مرضئ خدا کیسی تھی جس کو ہنگامۂ ہستی نے ابھرنے نہ دیا جس کو ہم سن نہیں پائے وہ صدا کیسی تھی میرا آئینۂ احساس شکستہ تھا اگر صورت حال مری تو ہی بتا کیسی تھی اب جو آزاد ہوئے ہیں تو خیال آیا ہے کہ ہمیں قید بھلی تھی تو سزا کیسی ...

    مزید پڑھیے

    قدموں سے میرے گرد سفر کون لے گیا

    قدموں سے میرے گرد سفر کون لے گیا منزل پہ راستے کی خبر کون لے گیا روئے افق سے نور سحر کون لے گیا اس اوج تک کمند نظر کون لے گیا رکھ دی گئی تھی قدموں پہ اس کے اتار کر دستار جانتی ہے کہ سر کون لے گیا اس سطح پر کسے تھا مری ذات کا شعور اتنی تہوں میں آ کے گہر کون لے گیا سوکھے درخت نیزوں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے غبار اڑاتا ہوا سوار لگا

    مجھے غبار اڑاتا ہوا سوار لگا مرا قیاس ہواؤں کو ناگوار لگا اچھالنے میں تجھے کتنے ہاتھ شامل تھے کنارے بیٹھ کے لہروں کا کچھ شمار لگا وہ بوڑھا پیڑ جو تھا برگ و بار سے محروم ہم اس سے لگ کے جو بیٹھے تو سایہ دار لگا عبور دریا کو کرتا رہا مگر اک بار ہوئے جو شل مرے بازو تو بے کنار ...

    مزید پڑھیے

    آگے آگے شر پھیلاتا جاتا ہوں

    آگے آگے شر پھیلاتا جاتا ہوں پیچھے پیچھے اپنی خیر مناتا ہوں پتھر کی صورت بے حس ہو جاتا ہوں کیسی کیسی چوٹیں سہتا رہتا ہوں آخر اب تک کیوں نہ تمہیں آیا میں نظر جانے کہاں کہاں تو دیکھا جاتا ہوں سانسوں کے آنے جانے سے لگتا ہے اک پل جیتا ہوں تو اک پل مرتا ہوں دریا بالو مورم ڈھو کر ...

    مزید پڑھیے

    ہیں اور کئی ریت کے طوفاں مرے آگے

    ہیں اور کئی ریت کے طوفاں مرے آگے پھیلے گا ابھی اور بیاباں مرے آگے باہر نہیں کوئی بھی مری حد نظر سے مخفی ہے کوئی کوئی نمایاں مرے آگے ہستی مری صحرا ہے سراب اس کا مقدر آخر اسے ہونا ہے پشیماں مرے آگے ہوں میل کے پتھر کی طرح راہ گزر میں منزل پہ نظر رکھتے ہیں انساں مرے آگے طے ہو نہ ...

    مزید پڑھیے

    رکھتا نہیں ہے دشت سروکار آب سے

    رکھتا نہیں ہے دشت سروکار آب سے بہلائے جاتے ہیں یہاں پیاسے سراب سے دن میں بھی گھر اجالے سے محروم ہے تو ہے کرنوں کا کیا سوال کروں آفتاب سے بالکل درست ہوتے ہوئے فیل ہو گیا میں نے جواب نقل کیا تھا کتاب سے وہ سال ہو کہ ماہ ہو دن ہو کہ ہو گھڑی باقی نہیں بچوں گا کسی کے حساب سے ہر شے پر ...

    مزید پڑھیے

    وہی ساحل وہی منجدھار مجھ کو

    وہی ساحل وہی منجدھار مجھ کو بنایا اس نے کھیون ہار مجھ کو زباں کی دھار سے دیکھا ملا کر لگی کچھ تیز کم تلوار مجھ کو بٹھا رکھا مجھے سائے میں جس نے گرانی تھی وہی دیوار مجھ کو جنہیں ہے ناز اپنے فاصلوں پر پکڑنے دیں ذرا رفتار مجھ کو کبھی ہوتی نہ پھر لڑنے کی ہمت ملی اب تک نہ ایسی ہار ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4