Ghulam Murtaza Rahi

غلام مرتضی راہی

غلام مرتضی راہی کی غزل

    مری صفات کا جب اس نے اعتراف کیا

    مری صفات کا جب اس نے اعتراف کیا بجائے چہرہ کے آئینہ میں نے صاف کیا چھپا تھا ہیرا کوئی راستے کے پتھر میں ہماری ٹھوکروں نے اس کا انکشاف کیا موافقت میں چلی تھی مرے سفینے کی ہوا نے بیچ سمندر میں اختلاف کیا گہر بنا کے صدف نے اسے نکالا ہے کبھی جو بوند نے دریا سے انحراف کیا زمین ...

    مزید پڑھیے

    شکل صحرا کی ہمیشہ جانی پہچانی رہے

    شکل صحرا کی ہمیشہ جانی پہچانی رہے میرے آگے پیچھے دائیں بائیں ویرانی رہے ساری سمتیں آ کے جس مرکز پہ ہو جاتی ہیں ایک خم اسی جانب ہمیشہ میری پیشانی رہے آگے آگے میں ترا پرچم لیے چلتا رہوں ارض دل پر میرے قائم تیری سلطانی رہے روشنی کو ہو مری ایسا کوئی ماخذ عطا ذرۂ ناچیز میں دن رات ...

    مزید پڑھیے

    ماضی! تجھ سے ''حال'' مرا شرمندہ ہے

    ماضی! تجھ سے ''حال'' مرا شرمندہ ہے مجھ سے اچھا آج مرا کارندہ ہے کیسا انساں ترس رہا ہے جینے کو کیسے ساحل پر اک مچھلی زندہ ہے اس کے پیچھے اس سے بڑھ کر اک انسان آگے آگے اک خوں خوار درندہ ہے جیسے کوئی کاٹ رہا ہے جال مرا جیسے اڑنے والا کوئی پرندہ ہے نوع بشر کا وحشی پن جب یاد کرو یہ مت ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کے بعد ہم اب آسماں نہ رکھیں گے

    زمیں کے بعد ہم اب آسماں نہ رکھیں گے خلا رہے گا قدم ہم جہاں نہ رکھیں گے جواب دینا پڑے گا ہمیں خموشی کا سو طے کیا ہے کہ منہ میں زباں نہ رکھیں گے کہیں اضافہ کہیں حذف تو کہیں ترمیم کہیں کی اب وہ مری داستاں نہ رکھیں گے تلے ہیں ہاتھ جو ورثے پہ صاف کرنے پر کسی بھی دور کا باقی نشاں نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4