مجھے غبار اڑاتا ہوا سوار لگا

مجھے غبار اڑاتا ہوا سوار لگا
مرا قیاس ہواؤں کو ناگوار لگا


اچھالنے میں تجھے کتنے ہاتھ شامل تھے
کنارے بیٹھ کے لہروں کا کچھ شمار لگا


وہ بوڑھا پیڑ جو تھا برگ و بار سے محروم
ہم اس سے لگ کے جو بیٹھے تو سایہ دار لگا


عبور دریا کو کرتا رہا مگر اک بار
ہوئے جو شل مرے بازو تو بے کنار لگا


نگاہ ارض و سما میں جو میں نے دوڑائی
کھنچا ہوا مجھے چاروں طرف حصار لگا