Ghulam Murtaza Rahi

غلام مرتضی راہی

غلام مرتضی راہی کی غزل

    بات بڑھتی گئی آگے مری نادانی سے

    بات بڑھتی گئی آگے مری نادانی سے کتنا ارزاں ہوا میں اپنی فراوانی سے خاک ہی خاک نظر آئی مجھے چاروں طرف جل گئے چاند ستارے مری تابانی سے بے تحاشہ جیے ہم لوگ ہمیں ہوش نہیں وقت آرام سے گزرا کہ پریشانی سے اب مرے گرد ٹھہرتی نہیں دیوار کوئی بندشیں ہار گئیں بے سر و سامانی سے آئے گا ...

    مزید پڑھیے

    نہ مرا زور نہ بس اب کیا ہے

    نہ مرا زور نہ بس اب کیا ہے اے گرفتار نفس اب کیا ہے میں ترے واسطے آئینہ تھا اپنی صورت کو ترس اب کیا ہے دانے دانے پہ اتر آئے پرند بندۂ دام ہوس اب کیا ہے کس ہوا میں ہے تو اے ابر کرم اب برس یا نہ برس اب کیا ہے رہا جب تک رہا سمتوں کا زوال آئی آواز جرس اب کیا ہے

    مزید پڑھیے

    پیڑ اگر اونچا ملتا ہے

    پیڑ اگر اونچا ملتا ہے مشکل سے سایہ ملتا ہے محنت سے پیسہ ملتا ہے جیسے کو تیسا ملتا ہے دریا کے رستے ساگر سے قطرہ قطرہ جا ملتا ہے صحرا جنگل ساگر پربت ان سے ہی رستہ ملتا ہے بیٹھے بیٹھے گھومنے والا دنیا کا نقشہ ملتا ہے

    مزید پڑھیے

    موجودگی کا اس کی اثر ہونے لگا ہے

    موجودگی کا اس کی اثر ہونے لگا ہے سب اس کے سوا محو نظر ہونے لگا ہے اطراف مرے خاک اڑا کرتی ہے اکثر طے اب مری جانب بھی سفر ہونے لگا ہے پرکھوں سے چلی آتی ہے یہ نقل مکانی اب مجھ سے بھی خالی مرا گھر ہونے لگا ہے جلدی سے میں اب اس کی طرف رخ نہیں کرتا آئینہ مرا سینہ سپر ہونے لگا ہے ترتیب ...

    مزید پڑھیے

    صدا وہ دیتا بھی ہوگا تو کیا خبر مجھ کو

    صدا وہ دیتا بھی ہوگا تو کیا خبر مجھ کو جو سننے دے یہ مشینوں کا شور و شر مجھ کو عجیب دشت ہوں میں بھی کہ ایک اک ذرہ اڑائے پھرتا ہے مدت سے در بدر مجھ کو ہر اک سے پوچھتا پھرتا ہے میرا نام و نشاں گزر گیا تھا کبھی سہل جان کر مجھ کو ہوا وہ دور سے دیتا ہے اپنے دامن کو قریب آتا نہیں جان کر ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہر ٹھہر کے مرا انتظار کرتا چل

    ٹھہر ٹھہر کے مرا انتظار کرتا چل یہ سخت راہ بھی اب اختیار کرتا چل سفر کی رات ہے ہر گام احتیاط برت پلٹ پلٹ کے اندھیروں پہ وار کرتا چل لیے جا کام تو اپنی فراخ دستی سے قدم قدم پہ مجھے زیر بار کرتا چل ادھر ادھر جو کھڑے ہو گئے ہیں تیرے لیے انہیں بھی اپنے سفر میں شمار کرتا چل کسی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں کہیں سے پر اسرار ہو لیا جائے

    کہیں کہیں سے پر اسرار ہو لیا جائے کہ اپنے حق میں بھی ہموار ہو لیا جائے وہ جس نے زخم لگائے رکھے گا مرہم بھی اسی کا دل سے طرف دار ہو لیا جائے یہی ہے نیند کا منشا کہ خواب غفلت سے صحیح وقت پہ بیدار ہو لیا جائے گرہ کشائی موج نفس بہانہ ہے کہ اس بہانے سے اس پار ہو لیا جائے کسی کی راہ ...

    مزید پڑھیے

    جو مجھ پہ بھاری ہوئی ایک رات اچھی طرح

    جو مجھ پہ بھاری ہوئی ایک رات اچھی طرح تو پھر گزر بھی گئے سانحات اچھی طرح میں بار بار گرایا گیا بلندی سے مجھے تو ہو گیا حاصل ثبات اچھی طرح کتاب سا مرا چہرہ تری نگاہ میں ہے بیان کر مری ذات و صفات اچھی طرح تو اپنے سینے سے مجھ کو یوں ہی لگائے رکھ سمجھ لوں تاکہ ترے دل کی بات اچھی ...

    مزید پڑھیے

    ملی راہ وہ کہ فرار کا نہ پتہ چلا

    ملی راہ وہ کہ فرار کا نہ پتہ چلا اڑا سنگ سے تو شرار کا نہ پتہ چلا جو کھنچے کھنچے مجھے لگ رہے تھے یہاں وہاں کسی ایک ایسے حصار کا نہ پتہ چلا رہا جاتے جاتے نہ دیکھ سکنے کا غم ہمیں وہ غبار اٹھا کہ سوار کا نہ پتہ چلا رہی ہجر میں جو اک ایک پل کی خبر مجھے تو وصال میں شب تار کا نہ پتہ ...

    مزید پڑھیے

    راہ سے مجھ کو ہٹا کر لے گیا

    راہ سے مجھ کو ہٹا کر لے گیا جان کا خطرہ بتا کر لے گیا کٹ مرا اک شخص اپنی آن پر اور اپنا سر اٹھا کر لے گیا ایک دن دریا مکانوں میں گھسا اور دیواریں اٹھا کر لے گیا ہاتھ سورج کے نہ جب آئی ندی آگ پانی میں لگا کر لے گیا اڑتی چنگاری کو جگنو جان کر طفل دامن میں چھپا کر لے گیا مدتوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4