دیے جلائے گئے آئنے بنائے گئے
دیے جلائے گئے آئنے بنائے گئے
کوئی بتائے یہاں کون لوگ آئے گئے
متاع درہم و دینار پر نہیں موقوف
میں سو گیا تو مرے خواب تک چرائے گئے
بہت سے لوگ ستائے گئے ہیں دنیا میں
مگر وہ مجھ سے زیادہ نہیں ستائے گئے
چراغ سرد ہوئے دھوپ کی تمازت سے
درخت نیند کے عالم میں تھرتھرائے گئے
پناہ مل نہ سکے گی کسی کو گھر میں بھی
طیور صبح سے پہلے اگر اڑائے گئے
سحر کے وقت ہوا فیصلہ نکلنے کا
قدم بڑھانے سے پہلے دیے بڑھائے گئے
کسی کے عام سے چہرے کو بھولنے کے لیے
ہزار رنگ کے سپنے مجھے دکھائے گئے
پھر ایک بار اسی ڈھنگ سے بہار آئی
سروں کی فصل کٹی پھول بھی اگائے گئے
زمین پاؤں پکڑتی ہے اس علاقے کی
کہیں جو کھوئے گئے اس گلی میں پائے گئے
مجھے تھی جن کی غلامی کی آرزو ساجدؔ
اسیر کر کے مرے سامنے وہ لائے گئے