Ghani Ejaz

غنی اعجاز

غنی اعجاز کی غزل

    خواہشیں اپنی سرابوں میں نہ رکھے کوئی

    خواہشیں اپنی سرابوں میں نہ رکھے کوئی ان ہواؤں کو حبابوں میں نہ رکھے کوئی چند لمحوں کا یہ جینا ہے غنیمت جانو زندگی اپنی عذابوں میں نہ رکھے کوئی آج ہر فرد ہے اک حسرت تعبیر لیے اب خیالات کو خوابوں میں نہ رکھے کوئی کام تحقیق کے عنواں پہ بڑھے گا کیسے گر سوالوں کو جوابوں میں نہ رکھے ...

    مزید پڑھیے

    جور بے جا کو جو کہتے ہو بجا ہے وہ بھی

    جور بے جا کو جو کہتے ہو بجا ہے وہ بھی دست قاتل پہ لہو ہے کہ حنا ہے وہ بھی لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کا فریب وہ مگر خوب سمجھتا ہے خدا ہے وہ بھی آج بس آج ہے کیا ذکر گذشتہ کل کا لاکھ سونا سہی مٹی میں دبا ہے وہ بھی تم جسے جبر و ستم قہر و غضب کہتے ہو اپنے اعمال کی دراصل سزا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    بجلی کی زد میں ایک مرا آشیاں نہیں

    بجلی کی زد میں ایک مرا آشیاں نہیں وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں بلبل کو غم ہے گل کے نگہباں نہیں رہے گلچیں ہے خوش کہ اب کوئی دامن کشاں نہیں منزل کا ملنا ذوق تجسس کی موت ہے اچھا ہے جو حیات مری کامراں نہیں چشم کرم نہیں نگۂ خشمگیں تو ہے نا مہرباں تو ہیں وہ اگر مہرباں نہیں وہ ...

    مزید پڑھیے

    تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں

    تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں سفر جاری قدم ٹوٹے ہوئے ہیں بظاہر تو ہیں سالم جسم و جاں سے مگر اندر سے ہم ٹوٹے ہوئے ہیں ادھورے ہیں یہاں سارے کے سارے سبھی تو بیش و کم ٹوٹے ہوئے ہیں برا ہو اعتماد باہمی کا کہ سب قول و قسم ٹوٹے ہوئے ہیں تعلق ٹوٹنے کو ہے جہاں سے چلو کہ بند غم ٹوٹے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    بے وفا کے وعدہ پر اعتبار کرتے ہیں

    بے وفا کے وعدہ پر اعتبار کرتے ہیں وہ نہ آئے گا پھر بھی انتظار کرتے ہیں لوگ اب محبت میں کاروبار کرتے ہیں دل بچا کے رکھتے ہیں جاں شکار کرتے ہیں عشرتیں جہاں بھر کی بس انہیں کا حصہ ہے جو روش زمانے کی اختیار کرتے ہیں شخصیت میں جھانکیں تو اور ہی تماشہ ہے باتیں جو نصیحت کی بے شمار ...

    مزید پڑھیے

    بجلی گری تو سوچ کے سب تار کٹ گئے

    بجلی گری تو سوچ کے سب تار کٹ گئے یک لخت روشنی سے اندھیرے لپٹ گئے صحرا نوردیوں میں تو محفوظ تھے مگر شہروں کے آس پاس ہی خیمے الٹ گئے ملنے کو چند روز ملے تھے سکون کے دن اپنی عمر کے تو بہرحال گھٹ گئے سائے کہ پھیلتے ہی چلے تھے زمین پر سورج نے جوں ہی آنکھ دکھائی سمٹ گئے انجام کار خود ...

    مزید پڑھیے

    جنوں میں دیر سے خود کو پکارتا ہوں میں

    جنوں میں دیر سے خود کو پکارتا ہوں میں جو غم ہے دامن صحرا میں وہ صدا ہوں میں بدل گیا ہے زمانہ بدل گیا ہوں میں اب اپنی سمت بھی حیرت سے دیکھتا ہوں میں حیات ایک سزا ہے بھگت رہا ہوں میں در قبول سے لوٹی ہوئی دعا ہوں میں جسے خود آپ ہی اپنے پہ پیار آ جائے جفا کے دور میں وہ لغزش وفا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    انداز فکر اہل جہاں کا جدا رہا

    انداز فکر اہل جہاں کا جدا رہا وہ مجھ سے خوش رہے تو زمانہ خفا رہا عالم حیات کا نہ کبھی ایک سا رہا دنیا میں زندگی کا تماشا بنا رہا تھا ہر قدم پہ اپنے عزائم کا امتحاں ہر گام حادثات کا محشر بپا رہا پھولوں کی عہد گل میں تجارت تو خوب کی پوچھے کوئی کہ دامن گلچیں میں کیا رہا بار گراں ...

    مزید پڑھیے

    آپ اپنے کو معتبر کر لیں

    آپ اپنے کو معتبر کر لیں ملنے والوں کے دل میں گھر کر لیں زندگانی کے دن جو تھوڑے ہیں کیوں نہ ہنس بول کر بسر کر لیں چن رہے ہیں جو عیب اوروں کے اپنے دامن پہ بھی نظر کر لیں کون دیتا ہے ساتھ مشکل میں حوصلوں ہی کو ہم سفر کر لیں چاہئے کچھ سکون دنیا میں خواہشیں اپنی مختصر کر لیں بات ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ہم راہ نہیں راہ کی مشکل کے سوا

    کوئی ہم راہ نہیں راہ کی مشکل کے سوا حاصل عمر بھی کیا ہے غم حاصل کے سوا ایک سناٹا مسلط تھا گزر گاہوں پر زندگی تھی بھی کہاں کوچۂ قاتل کے سوا ہر قدم حادثے ہر گام مراحل تھے یہاں اپنے قدموں میں ہر اک شے رہی منزل کے سوا تھا مثالی جو زمانے میں سمندر کا سکوت کون طوفان اٹھاتا رہا ساحل کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2