تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں

تھکن غالب ہے دم ٹوٹے ہوئے ہیں
سفر جاری قدم ٹوٹے ہوئے ہیں


بظاہر تو ہیں سالم جسم و جاں سے
مگر اندر سے ہم ٹوٹے ہوئے ہیں


ادھورے ہیں یہاں سارے کے سارے
سبھی تو بیش و کم ٹوٹے ہوئے ہیں


برا ہو اعتماد باہمی کا
کہ سب قول و قسم ٹوٹے ہوئے ہیں


تعلق ٹوٹنے کو ہے جہاں سے
چلو کہ بند غم ٹوٹے ہوئے ہیں


خدا کا گھر نہ بخشا ظالموں نے
کئی دیر و حرم ٹوٹے ہوئے ہیں


انہیں منصف نہیں قاتل کہو تم
کہ سب ان کے قلم ٹوٹے ہوئے ہیں