جور بے جا کو جو کہتے ہو بجا ہے وہ بھی

جور بے جا کو جو کہتے ہو بجا ہے وہ بھی
دست قاتل پہ لہو ہے کہ حنا ہے وہ بھی


لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کا فریب
وہ مگر خوب سمجھتا ہے خدا ہے وہ بھی


آج بس آج ہے کیا ذکر گذشتہ کل کا
لاکھ سونا سہی مٹی میں دبا ہے وہ بھی


تم جسے جبر و ستم قہر و غضب کہتے ہو
اپنے اعمال کی دراصل سزا ہے وہ بھی


چارہ گر بھول گئے ہوں تو بتا دو اعجازؔ
زہر کہتے ہیں جسے ایک دوا ہے وہ بھی