Fuzail Jafri

فضیل جعفری

ممتاز جدید نقاد

Prominent modern critic from Mumbai

فضیل جعفری کی غزل

    ہر سمت لہو رنگ گھٹا چھائی سی کیوں ہے

    ہر سمت لہو رنگ گھٹا چھائی سی کیوں ہے دنیا مری آنکھوں میں سمٹ آئی سی کیوں ہے کیا مثل چراغ شب آخر ہے جوانی شریانوں میں اک تازہ توانائی سی کیوں ہے در آئی ہے کیوں کمرے میں دریاؤں کی خوشبو ٹوٹی ہوئی دیواروں پہ للچائی سی کیوں ہے میں اور مری ذات اگر ایک ہی شے ہیں پھر برسوں سے دونوں ...

    مزید پڑھیے

    آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی

    آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی اڑ جائے گی فصیل شب جبر توڑ کر قیدی نہیں ہوا جسے اندھا کرے کوئی دل تختۂ گلاب بھی آتش فشاں بھی ہے اس رہگزر سے روز نہ گزرا کرے کوئی اوڑھی ہے اس نے سرد خموشی مثال سنگ لفظوں کے آبشار گرایا کرے کوئی پانی کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    رخ ہواؤں کے کسی سمت ہوں منظر ہیں وہی

    رخ ہواؤں کے کسی سمت ہوں منظر ہیں وہی ٹوپیاں رنگ بدلتی ہیں مگر سر ہیں وہی جن کے اجداد کی مہریں در و دیوار پہ ہیں کیا ستم ہے کہ بھرے شہر میں بے گھر ہیں وہی پھول ہی پھول تھے خوابوں میں سر وادیٔ شب صبح دم راہوں میں جلتے ہوئے پتھر ہیں وہی ناؤ کاغذ کی چلی کاٹھ کے گھوڑے دوڑے شعبدہ بازی ...

    مزید پڑھیے

    وہ موج خنک شہر شرر تک نہیں آئی

    وہ موج خنک شہر شرر تک نہیں آئی دریاؤں کی خوشبو مرے گھر تک نہیں آئی سناٹے سجائے گئے گل دانوں میں گھر گھر کھوئے ہوئے پھولوں کی خبر تک نہیں آئی ہم اہل جنوں پار اتر جائیں گے لیکن کشتی ابھی ساحل سے بھنور تک نہیں آئی صد شکر ترا روشنئ طبع کہ ہم کو برباد کیا اور نظر تک نہیں آئی

    مزید پڑھیے

    چہرے مکان راہ کے پتھر بدل گئے

    چہرے مکان راہ کے پتھر بدل گئے جھپکی جو آنکھ شہر کے منظر بدل گئے شہروں میں ہنستی کھیلتی چلتی رہی مگر جنگل میں باد صبح کے تیور بدل گئے ہاں اس میں کامدیو کی کوئی خطا نہیں رستے وفا کے سخت تھے دلبر بدل گئے وہ آندھیاں چلی ہیں سر دشت آرزو دل بجھ گیا وفاؤں کے محور بدل گئے پھوٹی کرن تو ...

    مزید پڑھیے

    میں اجڑا شہر تھا تپتا تھا دشت کے مانند (ردیف .. و)

    میں اجڑا شہر تھا تپتا تھا دشت کے مانند ترا وجود کہ سیراب کر گیا مجھ کو ہر آدمی میں تھے دو چار آدمی پنہاں کسی کو ڈھونڈنے نکلا کوئی ملا مجھ کو ہے میرے درد کو درکار گوشت کی خوشبو بہت نہیں تری یادوں کا سلسلہ مجھ کو تری بدن میں مرے خواب مسکراتے ہیں دکھا کبھی مرے خوابوں کا آئینہ مجھ ...

    مزید پڑھیے

    سر صحرائے دنیا پھول یوں ہی تو نہیں کھلتے

    سر صحرائے دنیا پھول یوں ہی تو نہیں کھلتے دلوں کو جیتنا پڑتا ہے تحفے میں نہیں ملتے یہ کیا منظر ہے جیسے سو گئی ہوں سوچ کی لہریں یہ کیسی شام تنہائی ہے پتے تک نہیں ہلتے مزا جب تھا کہ بوتل سے ابلتی پھیلتی رت میں دھواں سانسوں سے اٹھتا گرم بوسوں سے بدن چھلتے جو بھر بھی جائیں دل کے زخم ...

    مزید پڑھیے

    چھو بھی تو نہیں سکتے ہم موج صبا بن کر (ردیف .. و)

    چھو بھی تو نہیں سکتے ہم موج صبا بن کر للچائی نگاہوں سے تکتے ہیں گلابوں کو سو دکھ ہمیں دیتی ہے ہاں تشنہ لبی لیکن پانی تو نہیں سمجھے ہم لوگ سرابوں کو افسانوں کی دنیا میں سب جھوٹ نہیں ہوتا دل اور بھی الجھے گا پڑھیے نہ کتابوں کو سچ ہے دل دیوانہ خوابوں سے بہلتا ہے ہر رات مگر کیسے ...

    مزید پڑھیے

    ہے عبارت جو غم دل سے وہ وحشت بھی نہ تھی

    ہے عبارت جو غم دل سے وہ وحشت بھی نہ تھی سچ ہے شاید کہ ہمیں اس سے محبت بھی نہ تھی زندگی اور پر اسرار ہوئی جاتی ہے عشق کا ساتھ نہ ہوتا تو شکایت بھی نہ تھی تجھ سے چھٹ کر نہ کبھی پیار کسی سے کرتے دل کے بہلانے کی لیکن کوئی صورت بھی نہ تھی گھور اندھیروں میں خود اپنے کو صدا دے لیتے راہ ...

    مزید پڑھیے

    چپ رہے دیکھ کے ان آنکھوں کے تیور عاشق

    چپ رہے دیکھ کے ان آنکھوں کے تیور عاشق ورنہ کیا کچھ نہ اٹھا سکتے تھے محشر عاشق دیکھیں اب کون سے رستے پہ زمانہ جائے کوچہ کوچہ ہیں پری زاد تو گھر گھر عاشق دم بخود زہرہ جبینوں کو تکا کرتا ہے ہے ہماری ہی طرح راہ کا پتھر عاشق وہ بھی انسان ہے کس کس کو نوازے گا فضیلؔ پھول سی جان کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4