رخ ہواؤں کے کسی سمت ہوں منظر ہیں وہی

رخ ہواؤں کے کسی سمت ہوں منظر ہیں وہی
ٹوپیاں رنگ بدلتی ہیں مگر سر ہیں وہی


جن کے اجداد کی مہریں در و دیوار پہ ہیں
کیا ستم ہے کہ بھرے شہر میں بے گھر ہیں وہی


پھول ہی پھول تھے خوابوں میں سر وادیٔ شب
صبح دم راہوں میں جلتے ہوئے پتھر ہیں وہی


ناؤ کاغذ کی چلی کاٹھ کے گھوڑے دوڑے
شعبدہ بازی کے سچ پوچھو تو دفتر ہیں وہی


بک گئے پچھلے دنوں صاحب عالم کتنے
ہم فقیروں کے مگر جعفریؔ تیور ہیں وہی