Fuzail Jafri

فضیل جعفری

ممتاز جدید نقاد

Prominent modern critic from Mumbai

فضیل جعفری کی غزل

    خون پلکوں پہ سر شام جمے گا کیسے

    خون پلکوں پہ سر شام جمے گا کیسے درد کا شہر جو اجڑا تو بسے گا کیسے روز و شب یادوں کے آسیب ستائیں گے کوئی شہر میں تجھ سے خفا ہو کے رہے گا کیسے دل جلا لیتے تھے ہم لوگ اندھیروں میں مگر دل بھی ان تیز ہواؤں میں جلے گا کیسے کس مصیبت سے یہاں تک ترے ساتھ آئے تھے راستہ تجھ سے الگ ہو کے کٹے ...

    مزید پڑھیے

    گر بھی جائیں تو نہ مسمار سمجھئے ہم کو

    گر بھی جائیں تو نہ مسمار سمجھئے ہم کو روشنی سی پس دیوار سمجھئے ہم کو ہم بھی آخر ہیں یکے از متوسط طبقہ موت کے بعد بھی بیمار سمجھئے ہم کو بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو وقت معصوم و جری روحوں کے درپئے ہے فضیلؔ زندہ جب تک ہیں سر دار سمجھئے ...

    مزید پڑھیے

    دیوانے اتنے جمع ہوئے شہر بن گیا

    دیوانے اتنے جمع ہوئے شہر بن گیا جنگل کے حق میں جوش جنوں زہر بن گیا اچٹی جو نیند دل کا ہر اک زخم جاگ اٹھا یادوں کا چاند پچھلے پہر قہر بن گیا یہ زیست ہے فضیلؔ کہ دریائے درد ہے ہر لمحہ غم کی امڈی ہوئی لہر بن گیا

    مزید پڑھیے

    لفظوں کا سائبان بنا لینے دیجئے

    لفظوں کا سائبان بنا لینے دیجئے سایوں کو طاق دل میں سجا لینے دیجئے گہرے سمندروں کی تہیں مت کھنگالیے دل کو کھلی ہوا کا مزا لینے دیجئے سوچے گا ذہن سارے مسائل کے حل مگر پہلے بدن کی آگ بجھا لینے دیجئے کب تک مثال دشت سہیں موسموں کا جبر خوابوں کا کوئی شہر بسا لینے دیجئے یادوں کے ...

    مزید پڑھیے

    تیز آندھی رات اندھیاری اکیلا راہ رو

    تیز آندھی رات اندھیاری اکیلا راہ رو بڑھ رہا ہے سوچتا ڈرتا جھجکتا راہ رو منزلیں سمتیں بدلتی جا رہی ہیں روز و شب اس بھری دنیا میں ہے انسان تنہا راہ رو کچھ تو ہے جو شہر میں پھرتا ہے گھبراتا ہوا بے خبر ورنہ بھرے جنگل سے گزرا راہ رو کھڑکیاں کھلنے لگیں دروازے وا ہونے لگے جب بھی گزرا ...

    مزید پڑھیے

    کیسا مکان سایۂ دیوار بھی نہیں

    کیسا مکان سایۂ دیوار بھی نہیں جیتے ہیں زندگی سے مگر پیار بھی نہیں اٹھتی نہیں ہے ہم پہ کوئی مہرباں نگاہ کہنے کو شہر محفل اغیار بھی نہیں رک رک کے چل رہے ہیں کہ منزل نہیں کوئی ہر کوچہ ورنہ کوچۂ دل دار بھی نہیں گزری ہے یوں تو دشت میں تنہائیوں کے عمر دل بے نیاز کوچہ و بازار بھی ...

    مزید پڑھیے

    صاحب دلوں سے راہ میں آنکھیں ملا کے دیکھ

    صاحب دلوں سے راہ میں آنکھیں ملا کے دیکھ رکھتا ہے تو بھی دل تو اسے آزما کے دیکھ پہچاننے کی پیار کو کوشش کبھی تو کر خود کو کبھی تو اپنے بدن سے ہٹا کے دیکھ یا لذتوں کو زہر سمجھ اور دور رہ یا شعلۂ گناہ میں دامن جلا کے دیکھ ہر چند ریگ زار سہی زندگی مگر پل بھر کو اپنے جسم کا جادو جگا ...

    مزید پڑھیے

    بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی

    بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی وہ بھی اک شام تھی جب ساتھ چھٹا تھا اس کا واہمے دل میں سر شام در آتے ہیں کئی پاؤں کی دھول بھی بن جاتی ہے دشمن اپنی گھر سے نکلو تو پھر ایسے سفر آتے ہیں کئی قریۂ جاں سے گزرنا بھی کچھ آسان نہیں راہ میں جعفری ...

    مزید پڑھیے

    رشتہ جگر کا خون جگر سے نہیں رہا

    رشتہ جگر کا خون جگر سے نہیں رہا موسم طواف کوچہ و در کا نہیں رہا دل یوں تو گاہ گاہ سلگتا ہے آج بھی منظر مگر وہ رقص شرر کا نہیں رہا مجبور ہو کے جھکنے لگا ہے یہاں وہاں یہ سر بھی تیرے خاک بہ سر کا نہیں رہا گھر کا تو خیر ذکر ہی کیا ہے کہ ذہن میں نقشہ بھی اس بھرے پرے گھر کا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل مطمئن ہے حرف وفا کے بغیر بھی

    دل مطمئن ہے حرف وفا کے بغیر بھی روشن ہے راہ نور صدا کے بغیر بھی اک خوف سا درختوں پہ طاری تھا رات بھر پتے لرز رہے تھے ہوا کے بغیر بھی گھر گھر وبائے حرص و ہوس ہے تو کیا ہوا مرتے ہیں لوگ روز وبا کے بغیر بھی میں ساری عمر لفظوں سے کمبل نہ بن سکا کٹتی ہے رات یعنی ردا کے بغیر بھی احساس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4