تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے
تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں سکھ شانت کی گویا تو ہری کھیتی ہے
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، جنہوں نے جدید شاعری کے لئے راہ ہموار کی۔ اپنے بصیرت افروز تنقیدی تبصروں کے لئے معروف۔ گیان پیٹھ انعام سے سرفراز
One of the most influential Pre-modern poets who paved the way for the modern Urdu ghazal. Known for his perceptive critical comments. Recipient of Gyanpeeth award.
تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں سکھ شانت کی گویا تو ہری کھیتی ہے
جس طرح ندی میں ایک تارا لہرائے جس طرح گھٹا میں ایک کوندا بل کھائے برمائے فضا کو جیسے اک چندر کرن یونہی شام فراق تیری یاد آئے
ماں اور بہن بھی اور چہیتی بیٹی گھر کی رانی بھی اور جیون ساتھی پھر بھی وہ کامنی سراسر دیوی اور سیج پہ بیسوا وہ رس کی پتلی
کرتے نہیں کچھ تو کام کرنا کیا آئے جیتے جی جان سے گزرنا کیا آئے رو رو کے موت مانگنے والوں کو جینا نہیں آ سکا تو مرنا کیا آئے
کیا تیرے خیال نے بھی چھیڑا ہے ستار سینے میں اڑ رہے ہیں نغموں کے شرار دھیان آتے ہی صاف بجنے لگتے ہیں کان ہے یاد تیری وہ کھنک وہ جھنکار
لچکا لچکا بدن مجسم ہے نسیم مہکا مہکا وہ چہرہ سانسوں کی شمیم دوشیزگئی جمال صبح جنت گاتے ہوئے نرم گام موج تسنیم
کس پیار سے ہوتی ہے خفا بچے سے کچھ تیوری چڑھائے ہوئے منہ پھیرے ہوئے اس روٹھنے پر پریم کا سنسار نثار کہتی ہے کہ جا تجھ سے نہیں بولیں گے
اے معنیٔ کائنات مجھ میں آ جا اے راز صفات و ذات مجھ میں آ جا سوتا سنسار جھلملاتے تارے اب بھیگ چلی ہے رات مجھ میں آ جا
کھوتے ہیں اگر جان تو کھو لینے دے ایسے میں جو ہو جائے وہ ہو لینے دے ایک عمر پڑی ہیں صبر بھی کر لیں گے اس وقت تو جی بھر کے رو لینے دے
جب رات گئے سہاگ کرتی ہے نگاہ دل میں شب ماہ کے اترتی ہے نگاہ رتنار نین سے پھوٹتی ہیں کرنیں یا کاہکشاں کی مانگ بھرتی ہے نگاہ