فضل گیلانی کی غزل

    گر نہیں ہے تو میرے یاں نہیں ہے

    گر نہیں ہے تو میرے یاں نہیں ہے رائیگانی کہاں کہاں نہیں ہے جسے موج ہوا اڑائے پھرے یہ مرا جسم ہے دھواں نہیں ہے میں وہاں بھی نہیں جہاں میں ہوں تو وہاں بھی ہے تو جہاں نہیں ہے اب تو کھل کر ملا کرو مجھ سے اب محبت بھی درمیاں نہیں ہے بات کرنی ہے جانتے ہوئے بھی اس جگہ جان کی اماں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر کبھی مجھ سے حل ہوا ہی نہ تھا

    تمام عمر کبھی مجھ سے حل ہوا ہی نہ تھا وہ مسئلہ جو حقیقت میں مسئلہ ہی نہ تھا بدن سے جس کی تھکن آج تک نہیں اتری میں اس سفر پہ روانہ کبھی ہوا ہی نہ تھا کچھ اس لیے بھی مجھے ہجر میں سہولت ہے ترا وصال کبھی میرا مدعا ہی نہ تھا بدن کا بھید کھلا ہے ترا بدن چھو کر یہ مصرع مجھ پہ وگرنہ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    اس لئے بھی مجھے تجھ سے ملنے میں تاخیر ہے

    اس لئے بھی مجھے تجھ سے ملنے میں تاخیر ہے خواب کی سمت جاتی سڑک زیر تعمیر ہے اتنے پھول اک جگہ دیکھ کر سب کا جی خوش ہوا پتیاں جھڑنے پر کوئی کوئی ہی دلگیر ہے ہنستی دنیا ملی آنکھ کھلتے ہی روتی ہوئی یہ مرا خواب تھا اور یہ اس کی تعبیر ہے جس زباں میں ہے اس کی سمجھ ہی نہیں آ رہی غار کے دور ...

    مزید پڑھیے

    ہم جو اک لہر میں لہراتے ہوئے جھومتے ہیں

    ہم جو اک لہر میں لہراتے ہوئے جھومتے ہیں کیوں نہ ایسا ہو کہ ہم ساتھ ترے جھومتے ہیں رقص درویش کا یہ سلسلہ دنیا سے نہ جوڑ ہم کسی اور ہی لذت کے لیے جھومتے ہیں ایسی منزل پہ لے آیا ہے مرا رقص مجھے اب کئی سلسلے بھی ساتھ مرے جھومتے ہیں ڈول جائے نہ ترے ڈولنے سے پرتو نور تیرے ہم راہ کئی ...

    مزید پڑھیے

    یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے

    یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے مرے ہو جائیں یہ سارے جھرنے منظر آلودہ ہوا جاتا ہے کس نے دریا میں اتارے جھرنے کسی امکان کا پہلو ہیں کوئی تری آواز ہمارے جھرنے اتنی نمناک جو ہے خاک مری کس نے مجھ میں سے گزارے جھرنے مجھ میں تصویر ہوئی آخر شب خامشی پیڑ ستارے جھرنے ایک وادی ہے سر کوہ ...

    مزید پڑھیے

    ہنس کر میں زندگی کی اذیت اٹھاؤں گا

    ہنس کر میں زندگی کی اذیت اٹھاؤں گا تیرے لیے سکون کے لمحے بناؤں گا میں نے بدل لیا ہے رویہ ہوائے شب اب تو دیا بجھائے گی میں پھر جلاؤں گا چل ہی پڑے گی چاروں طرف باد نوبہار جب میں زمیں پہ آخری پتا گراؤں گا فرضی حکایتوں پہ نہ آنسو گنواؤ تم یارو کبھی میں اپنی کہانی سناؤں گا پھیلاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹ کر عشق کیا ہے بھی نہیں بھی شاید

    ٹوٹ کر عشق کیا ہے بھی نہیں بھی شاید مجھ سے یہ کام ہوا ہے بھی نہیں بھی شاید اے مری آنکھ کی دہلیز پہ دم توڑتے خواب مجھ کو افسوس ترا ہے بھی نہیں بھی شاید میری آنکھوں میں ہے ویرانی بھی شادابی بھی خواب کا پیڑ ہرا ہے بھی نہیں بھی شاید دل میں تشکیک ہوئی تجھ کو نہ چھو کر کیا کیا ایسے ...

    مزید پڑھیے

    بدن کا رمز سمجھ روح کا اشارہ سمجھ

    بدن کا رمز سمجھ روح کا اشارہ سمجھ مجھے سمجھ نہ سمجھ دکھ مرا خدارا سمجھ تجھے ہم اور کسی کا نہ ہونے دیں گے کبھی تو بھا گیا ہے ہمیں خود کو اب ہمارا سمجھ جو تیرگی میں تجھے کچھ دکھائی دیتا نہیں سمجھ میں آئے تو اس کو بھی اک نظارہ سمجھ نہیں تو وقت ہی سمجھائے گا تجھے اک دن میں چاہتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    ایک دوجے کو جانتے ہی نہیں

    ایک دوجے کو جانتے ہی نہیں اب کھلا ہے کہ ہم وہ تھے ہی نہیں جتنے پتھر ہوا کے ہاتھ میں ہیں سر خاک اتنے آئنے ہی نہیں ایسی ہموار رہ گزر تھی مری کہیں سیدھے قدم پڑے ہی نہیں خواب ہیں اور کچھ ملال بھی ہیں آنکھ میں صرف رت جگے ہی نہیں سن اداسی کے وہ چراغ ہیں ہم جل رہے ہیں کبھی بجھے ہی ...

    مزید پڑھیے

    عجب ٹھہراؤ تھا جس میں مسافت ہو رہی تھی

    عجب ٹھہراؤ تھا جس میں مسافت ہو رہی تھی روانہ بھی نہیں تھا اور ہجرت ہو رہی تھی بنایا جا رہا تھا کینوس پر زرد سورج ابھارا جا رہا تھا نقش حیرت ہو رہی تھی کہیں جاتا نہیں تھا میں کہیں آتا نہیں تھا یقیں آتا نہیں تھا ایسی حالت ہو رہی تھی مرا اس کے بنا تو جی ذرا لگتا نہیں تھا اداسی لوٹ ...

    مزید پڑھیے