ہنس کر میں زندگی کی اذیت اٹھاؤں گا
ہنس کر میں زندگی کی اذیت اٹھاؤں گا
تیرے لیے سکون کے لمحے بناؤں گا
میں نے بدل لیا ہے رویہ ہوائے شب
اب تو دیا بجھائے گی میں پھر جلاؤں گا
چل ہی پڑے گی چاروں طرف باد نوبہار
جب میں زمیں پہ آخری پتا گراؤں گا
فرضی حکایتوں پہ نہ آنسو گنواؤ تم
یارو کبھی میں اپنی کہانی سناؤں گا
پھیلاؤں گا میں دامن دل تیرے سامنے
تو سوچتا ہے میں ترا احساں اٹھاؤں گا
اک پل میں ایک واقعہ رکھوں گا دھیان میں
اور دوسرے ہی پل میں اسے بھول جاؤں گا
سیدؔ اب اس کی راہ میں آنکھیں ہوئیں سفید
جو کہہ گیا تھا تیرے لیے لوٹ آؤں گا