یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے

یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے
مرے ہو جائیں یہ سارے جھرنے


منظر آلودہ ہوا جاتا ہے
کس نے دریا میں اتارے جھرنے


کسی امکان کا پہلو ہیں کوئی
تری آواز ہمارے جھرنے


اتنی نمناک جو ہے خاک مری
کس نے مجھ میں سے گزارے جھرنے


مجھ میں تصویر ہوئی آخر شب
خامشی پیڑ ستارے جھرنے


ایک وادی ہے سر کوہ سکوت
اور وادی کے کنارے جھرنے


دیکھو تو بہتے ہوئے وقت کی رو
اب ہمارے ہیں تمہارے جھرنے


کیا بتاؤں میں انہیں تو ہی بتا
پوچھتے ہیں ترے بارے جھرنے