ہم جو اک لہر میں لہراتے ہوئے جھومتے ہیں

ہم جو اک لہر میں لہراتے ہوئے جھومتے ہیں
کیوں نہ ایسا ہو کہ ہم ساتھ ترے جھومتے ہیں


رقص درویش کا یہ سلسلہ دنیا سے نہ جوڑ
ہم کسی اور ہی لذت کے لیے جھومتے ہیں


ایسی منزل پہ لے آیا ہے مرا رقص مجھے
اب کئی سلسلے بھی ساتھ مرے جھومتے ہیں


ڈول جائے نہ ترے ڈولنے سے پرتو نور
تیرے ہم راہ کئی شمع کدے جھومتے ہیں


ذرا دیکھو تو سہی اہل محبت کی طرف
کتنی سرمستیاں آنکھوں میں لیے جھومتے ہیں


روشنی راز ہے ایسا کہ سمجھ آنے پر
کتنے سر گھومتے ہیں کتنے دیے جھومتے ہیں


میں اکیلا تو نہیں جھوم رہا ہوں سیدؔ
تارے بھی ساتھ مرے رات گئے جھومتے ہیں