Fatima Nausheen

فاطمہ نوشین

فاطمہ نوشین کی غزل

    تمہارے آنے کا پیش خیمہ بنا کرے گا

    تمہارے آنے کا پیش خیمہ بنا کرے گا یہ پھول اکثر اسی بہانے کھلا کرے گا پھر اس کی ضد میں خدا بھی بتلاؤ کیا کرے گا جو اسم اعظم سے عشق کی ابتدا کرے گا میں سدرۃ المنتہیٰ پہ آ کے رکی ہوئی ہوں اب آگے جو بھی کرے گا میرا خدا کرے گا یہ لوگ خود کو ستم رسیدہ سمجھ رہے ہیں وہ گھاؤ دکھلا کے زخم ...

    مزید پڑھیے

    اب کے حسن نظر کتابوں پر

    اب کے حسن نظر کتابوں پر چند سطریں ہیں پر کتابوں پر لفظ بن کے وہ اشک مہکے صبح جو گرے رات بھر کتابوں پر میں سہولت سے کاٹ آئی ہوں زندگی کا سفر کتابوں پر روح لفظوں سے پھونکتے ہو تم اک غزل چارہ گر کتابوں پر تیرے وعدوں پر اعتبار آیا اس سے بھی پیشتر کتابوں پر کوئی کاندھا کہاں میسر ...

    مزید پڑھیے

    مانوس فضاؤں سے نکلتے ہوئے کچھ لوگ

    مانوس فضاؤں سے نکلتے ہوئے کچھ لوگ گمراہ ہوئے گھر کو مچلتے ہوئے کچھ لوگ تم نرم سماعت پہ دھرو ہاتھ کہ ہم آگ اشعار کی صورت میں اگلتے ہوئے کچھ لوگ دوبارہ بنے تو نہیں ٹوٹیں گے کسی سے ہم وصل کی حدت سے پگھلتے ہوئے کچھ لوگ منظر میں نہ ہونے کا تأسف ہے انہیں کیا اک سمت کھڑے ہاتھ مسلتے ...

    مزید پڑھیے

    اک طرف چاک پہ کوزے کو گھمانے کا ہنر

    اک طرف چاک پہ کوزے کو گھمانے کا ہنر اک طرف ہاتھ پہ روٹی کو بڑھانے کا ہنر کبھی لہجے پہ خفا تو کبھی کردار پہ شک تم نے سیکھا ہی نہیں عشق کمانے کا ہنر تم نے پہنا ہی نہیں میرا پسندیدہ لباس تم کو آیا ہی نہیں پاس بلانے کا ہنر اس نے تصویر کو صوفے کے مقابل ٹانگا خوب آتا ہے اسے کمرہ سجانے ...

    مزید پڑھیے

    حیرت ہی رہ گئی ہے جہان خراب میں

    حیرت ہی رہ گئی ہے جہان خراب میں ہائے سدھر گئے ہیں وہ اپنے شباب میں دستک بھی جلد آ گئی کچھ وقت بھی تھا کم ہڈی کے ساتھ بال بھی آیا کباب میں گریہ شب فراق میں کر کے بنا دے نہر پھر ماہتاب دیکھنا اترے گا آب میں جی بھر کے نیکیاں کروں اور وہ بھی اس لیے ہر بار پھر میں آپ کو مانگوں ثواب ...

    مزید پڑھیے

    تیرے صدقے بھلا نا چیز یہ وارے کیا کیا

    تیرے صدقے بھلا نا چیز یہ وارے کیا کیا تو نے دھرتی پہ اتارے ہیں ستارے کیا کیا اس شرافت کو لگے آگ سمجھ ہی نہ سکے ورنہ ملتے رہے ہم کو بھی اشارے کیا کیا تجھ سے وابستہ محبت کو قرار آنے لگا ہم نے دیکھے تری قربت میں خسارے کیا کیا ایک لمحے کو ہوا خود پہ حقیقت کا گماں تو نے مٹی پہ خدا نقش ...

    مزید پڑھیے

    طاق پر رکھ کے مرے خواب سجانے والے

    طاق پر رکھ کے مرے خواب سجانے والے تجھ کو اچھا نہیں سمجھیں گے زمانے والے گل فروشا بڑے دن بعد دی آواز ہمیں لے کے آئے ہو وہی گل وہ پرانے والے ہنستے جاتے ہو معافی کی طلب کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں بھلا یار منانے والے تم کہاں سے لیے آتے ہو ہمارا انداز کون ہیں لہجے یہاں بیچ کے کھانے ...

    مزید پڑھیے