Farzana Sabtain Farzi

فرزانہ سبطین فرزی

فرزانہ سبطین فرزی کی غزل

    ہم بار بار شکوۂ تقدیر کیا کریں

    ہم بار بار شکوۂ تقدیر کیا کریں ہوگی نہ کارگر کوئی تدبیر کیا کریں کاتب کو خود ہمارے مقدر پہ ہے ملال کیا کچھ پڑا ہے سہنا یہ تشہیر کیا کریں دیکھا ہے جب سے جھانک کے خود اپنے آپ کو اک مختلف سی مل گئی تصویر کیا کریں سپنے سہانے سب یہاں بکھرے ہیں ایک ایک اب خواب کچھ ہو خواب کی تعبیر کیا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو حق کی کوئی بات برملا کہئے

    کبھی تو حق کی کوئی بات برملا کہئے برا برے کو بھلے کو سدا بھلا کہئے ہوا کا دیکھیے رخ کون کتنا بدلا ہے قصور کس کا ہے میرا کہ آپ کا کہئے بیاں کا فرق ہے ورنہ وہی ہے کیفیت بجھا بجھا نہ سہی دل جلا جلا کہئے تمہارے بعد نہ کی کوئی آرزو میں نے اگر ہو دیکھا کبھی دل کا در کھلا کہئے کوئی کمی ...

    مزید پڑھیے