Farzana Ejaz

فرزانہ اعجاز

  • 1947

فرزانہ اعجاز کی غزل

    ابھی تک یاد ہے مجھ کو مرا سرشار ہو جانا

    ابھی تک یاد ہے مجھ کو مرا سرشار ہو جانا نظر کا ناگہاں اٹھنا ترا دیدار ہو جانا مری ہستی کا حاصل بن گیا وہ قیمتی لمحہ وہ اک ٹک دیکھنا ان کا مرا گلنار ہو جانا وہی لمحہ غنیمت جانیے جو ہنس کے کٹ جائے سکوں کھونا ہے یکسر زندگی کا بار ہو جانا ابھی کل کھیلتے پھرتے تھے آنکھیں میچ کر ہم ...

    مزید پڑھیے

    گھر نہ در کچھ نہیں رہا محفوظ

    گھر نہ در کچھ نہیں رہا محفوظ ہے غنیمت کہ سر رہا محفوظ لٹ گیا دل تو کیا رہا محفوظ ان کا غم میرا حوصلہ محفوظ رہنماؤں کی ہم کو حاجت کیا ہم نے رکھا ہے حوصلہ محفوظ عشق پیہم سے چشم پر نم سے کوئی دنیا میں کب رہا محفوظ ہم کو منکر نہ تو سمجھ واعظ دل میں ہر سمت ہے خدا محفوظ آپ پر مٹ کے ہم ...

    مزید پڑھیے

    ہم کو راہ عاشقی میں زندگی کا غم نہ تھا

    ہم کو راہ عاشقی میں زندگی کا غم نہ تھا مرحلہ در مرحلہ غم عاشقی ہی کم نہ تھا دھیرے دھیرے سیکھ لی ہم نے نگاہوں کی زباں ان کا انداز تکلم بھی بہت مبہم نہ تھا شہر کا عالم کہ جیسے سب یہاں پتھر کے ہوں خون انساں بہہ رہا تھا اور کسی کو غم نہ تھا کیوں چرا لیتے ہیں نظریں آتے جاتے لوگ ...

    مزید پڑھیے