گھر نہ در کچھ نہیں رہا محفوظ

گھر نہ در کچھ نہیں رہا محفوظ
ہے غنیمت کہ سر رہا محفوظ


لٹ گیا دل تو کیا رہا محفوظ
ان کا غم میرا حوصلہ محفوظ


رہنماؤں کی ہم کو حاجت کیا
ہم نے رکھا ہے حوصلہ محفوظ


عشق پیہم سے چشم پر نم سے
کوئی دنیا میں کب رہا محفوظ


ہم کو منکر نہ تو سمجھ واعظ
دل میں ہر سمت ہے خدا محفوظ


آپ پر مٹ کے ہم رہے گمنام
آپ کی ہر ادا ادا محفوظ


بار بار ان کے در پہ جانے سے
فاصلوں نے ہمیں رکھا محفوظ


اب کی کیسی چلی یہ باد سموم
جان محفوظ نہ ردا محفوظ


آج اک جام خاص میرے نام
میرے ساقی نے رکھ لیا محفوظ


ٹوٹ کر ہم بکھر گئے ہوتے
جو نہ رکھتے یہ حوصلہ محفوظ


ہر ہزیمت کے بعد فرزانہؔ
دل بچارا کہاں رہا محفوظ