ابھی تک یاد ہے مجھ کو مرا سرشار ہو جانا
ابھی تک یاد ہے مجھ کو مرا سرشار ہو جانا
نظر کا ناگہاں اٹھنا ترا دیدار ہو جانا
مری ہستی کا حاصل بن گیا وہ قیمتی لمحہ
وہ اک ٹک دیکھنا ان کا مرا گلنار ہو جانا
وہی لمحہ غنیمت جانیے جو ہنس کے کٹ جائے
سکوں کھونا ہے یکسر زندگی کا بار ہو جانا
ابھی کل کھیلتے پھرتے تھے آنکھیں میچ کر ہم تم
تمہیں سے پڑ رہا ہے اب ہمیں ہشیار ہو جانا
نئی خواہش ہر اک لمحہ تمنا چاند چھونے کی
ہمکنا دل کا سینے میں مرا بیزار ہو جانا
نہ دل میں جذبۂ ایماں نہ سودا سرفروشی کا
تو پھر کیوں چاہتے ہو آگ کا گلزار ہو جانا
دبی ہے پھر کوئی صحن چمن میں آج چنگاری
جو تم جانا گلستاں میں ذرا ہشیار ہو جانا
جو دل کا امتحاں چاہو تو پھر کچا گھڑا لا دو
وفا میں ڈوب جانا ہے ندی کے پار ہو جانا
کہاں تک ساتھ دے گا جذبۂ ایثار فرزانہؔ
لہو دینا چمن کو اور پس دیوار ہو جانا