فرخ جعفری کی غزل

    کٹی پہاڑ سی شب انتظار کرتے ہوئے

    کٹی پہاڑ سی شب انتظار کرتے ہوئے ہوئی تمام سحر آہ سرد بھرتے ہوئے تھے اس کے ہاتھ لہو میں ہمارے غرق مگر ذرا بھی شرم نہ آئی اسے مکرتے ہوئے ہوا چلی تو پریشاں ہوئے شجر اوراق مگر نہ تھے وہ ہماری طرح بکھرتے ہوئے کبھی ادھر سے جو گزریں تو یاد آتا ہے یہ کہ اس کو دیکھتا تھا اس راہ سے گزرتے ...

    مزید پڑھیے

    تمام پھینکے گئے پتھروں پہ بھاری تھا

    تمام پھینکے گئے پتھروں پہ بھاری تھا وہ ایک پھول اکیلا سبھوں پہ بھاری تھا نہ مجھ سے دل نے بتایا نہ میں نے ہی جانا وہ کیسا غم تھا جو سارے غموں پہ بھاری تھا میں ان کی رہ سے گزرتا نہ تھا مگر پھر بھی مرا وجود مرے دشمنوں پہ بھاری تھا اگرچہ بیٹھا تھا میں ان کے درمیاں خاموش مرا سکوت مگر ...

    مزید پڑھیے

    ایسا نہیں کہ منہ میں ہمارے زباں نہیں

    ایسا نہیں کہ منہ میں ہمارے زباں نہیں ہیں کم سخن ضرور پہ عاجز بیاں نہیں ہر چند جانتے ہیں اسے ہم قریب سے پر کیا کریں کہ پاۓ سخن درمیاں نہیں اچھا تو ایک پل کے لئے ہی اٹھا کے دیکھ اے آسماں جو بار امانت گراں نہیں خود ہم میں تاب دید نہیں ہے یہ اور بات رہتا ہے وہ نگاہ کے آگے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    اب کے جنوں ہوا تو گریباں کو پھاڑ کر

    اب کے جنوں ہوا تو گریباں کو پھاڑ کر دنیا کو چھوڑ جاؤں گا دامن کو جھاڑ کر یہ آئنہ فریب نظر ہے بہت نہ دیکھ اک روز تجھ کو پیش کرے گا بگاڑ کر مہماں سرائے جاں میں کوئی ٹھیرتا نہیں جب سے چلا گیا اسے کوئی اجاڑ کر فرخؔ ہوا ہے تیز قدم کو جما کے رکھ ورنہ یہ پھینک دے گی تجھے بھی اکھاڑ کر

    مزید پڑھیے

    یوں مسلط تو دھواں جسم کے اندر تک ہے

    یوں مسلط تو دھواں جسم کے اندر تک ہے دسترس آنکھ کی لیکن کسی منظر تک ہے مڑ کے دیکھوں تو تعاقب میں وہی سایہ ہو بھول جاؤں مرے ہم راہ کوئی گھر تک ہے میں کہ ویران جزیرہ ہوں بسا دے مجھ کو اے کہ اقلیم تری سات سمندر تک ہے اس کے آگے مجھے بے سمت و نشاں جانا تھا میں نے سمجھا تھا سفر آخری پتھر ...

    مزید پڑھیے

    دل کی یہ آگ بجھا دی کس نے

    دل کی یہ آگ بجھا دی کس نے بھیگے دامن کی ہوا دی کس نے بیٹھ جاتا تھا میں جس سے لگ کر وہی دیوار گرا دی کس نے میری آواز پہ بولا نہ کوئی چل پڑا میں تو صدا دی کس نے اب تکانوں کا سفر ہے میں ہوں آنکھ سے نیند اڑا دی کس نے اپنے ہی ہاتھ سے فرخؔ مجھ کو زہر پینے کی سزا دی کس نے

    مزید پڑھیے

    راہ گم کردہ سر منزل بھٹک کر آ گیا

    راہ گم کردہ سر منزل بھٹک کر آ گیا صبح کا بھولا تھا لیکن شام کو گھر آ گیا جیسے اس کو روک سکنا اپنے بس میں ہی نہیں جب بھی چاہا بے اجازت گھر کے اندر آ گیا بھاگ کر جائیں کہاں اب تو ہی کچھ تدبیر کر سامنے اپنے سمندر سر پہ لشکر آ گیا اس نے کوشش تو بہت کی سر بچانے کی مگر جس طرف سے تھا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سوچتے رہنے سے کیا قسمت کا لکھا جائے گا

    سوچتے رہنے سے کیا قسمت کا لکھا جائے گا جو بھی ہونا تھا ہوا جو ہوگا دیکھا جائے گا شہر کی سرحد تلک پہنچا کے سب رخصت ہوئے اب یہاں سے بس مرے ہمراہ صحرا جائے گا اب کوئی دیوار اس کے سامنے رکتی نہیں سیل گریہ اب مرے روکے نہ روکا جائے گا کیا مری آنکھوں سے دنیا خود کو دیکھے گی کبھی کیا ...

    مزید پڑھیے

    گو اس سفر میں تھک کے بدن چور ہو گیا

    گو اس سفر میں تھک کے بدن چور ہو گیا میں اس کی دسترس سے مگر دور ہو گیا اب اس کا نام لے کے پکاریں اسے کہاں صحرا بھی اب تو خلق سے معمور ہو گیا کیوں اس نے ہاتھ کھینچ لیا میرے قتل سے کیوں مجھ پہ رحم کھا کے وہ مغرور ہو گیا سب اپنے اپنے گھر میں نظر بند ہو گئے اب شہر پر سکون ہے مشہور ہو ...

    مزید پڑھیے

    اسے سمجھا بجھا کے ہم تو ہارے

    اسے سمجھا بجھا کے ہم تو ہارے نہ آیا دل یہ قابو میں ہمارے سن اے غافل جرس کیا کہہ رہا ہے پڑا رہ تو ہم اپنی رہ سدھارے کوئی آتا نہیں ہو جب مدد کو سوا اس کے کوئی کس کو پکارے حفاظت کرتے ہیں ہم شہر دل کی کہیں سوتے کوئی شب خوں نہ مارے سمندر کیوں ہوا تو اتنا کھاری کوئی رویا تھا کیا تیرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2