یوں مسلط تو دھواں جسم کے اندر تک ہے

یوں مسلط تو دھواں جسم کے اندر تک ہے
دسترس آنکھ کی لیکن کسی منظر تک ہے


مڑ کے دیکھوں تو تعاقب میں وہی سایہ ہو
بھول جاؤں مرے ہم راہ کوئی گھر تک ہے


میں کہ ویران جزیرہ ہوں بسا دے مجھ کو
اے کہ اقلیم تری سات سمندر تک ہے


اس کے آگے مجھے بے سمت و نشاں جانا تھا
میں نے سمجھا تھا سفر آخری پتھر تک ہے