فرخ جعفری کی غزل

    روشنی سے کس طرح پردا کریں گے

    روشنی سے کس طرح پردا کریں گے آخر شب سوچتے ہیں کیا کریں گے وہ سنہری دھوپ اب چھت پر نہیں ہے ہم بھی آئینے کو اب اندھا کریں گے جسم کے اندر جو سورج تپ رہا ہے خون بن جائے تو پھر ٹھنڈا کریں گے گھر سے وہ نکلے تو بس اسٹینڈ تک ہی اس کا سایہ بن کے ہم پیچھا کریں گے آنکھ پتھرا جائے گی یہ ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیا ایسا اسے مجھ میں نظر آیا تھا

    جانے کیا ایسا اسے مجھ میں نظر آیا تھا مجھ سے ملنے وہ بلندی سے اتر آیا تھا کوئی تو گرمئ احساس سے ملتا اس سے اتنے دن بعد تو وہ لوٹ کے گھر آیا تھا وہ مرے پاؤں کا چکر تھا کہ منزل تھی مری گھوم پھر کر وہی ہر بار کھنڈر آیا تھا وہ مرے ساتھ تھا صحرا ہو کہ دریا فرخؔ اس کے ہوتے ہوئے کیا لطف ...

    مزید پڑھیے

    خیال اس کا کہاں سے کہاں نہیں جاتا

    خیال اس کا کہاں سے کہاں نہیں جاتا وہاں بھی جائے کہ جس جا گماں نہیں جاتا بس اپنے باغ میں محو خرام رہتا ہے کہ خود سے دور وہ سرو رواں نہیں جاتا حجاب اس کے مرے بیچ اگر نہیں کوئی تو کیوں یہ فاصلۂ درمیاں نہیں جاتا کوئی ٹھہرتا نہیں یوں تو وقت کے آگے مگر وہ زخم کہ جس کا نشاں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی موسم ہو کچھ بھی ہو سفر کرنا ہی پڑتا ہے

    کوئی موسم ہو کچھ بھی ہو سفر کرنا ہی پڑتا ہے ادھر سے بوجھ کاندھے کا ادھر کرنا ہی پڑتا ہے کہاں جاتے ہیں کیا کرتے ہیں کس کے ساتھ رہتے ہیں ہمیں اپنا تعاقب عمر بھر کرنا ہی پڑتا ہے وہ اپنے تن پہ سہہ کر ہو کہ اپنی جان پر پھر بھی ہمیں اک معرکہ ہر روز سر کرنا ہی پڑتا ہے کھلا رکھیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی بہانے بھی دل سے الم نہیں جاتا

    کسی بہانے بھی دل سے الم نہیں جاتا خوشی تو جانے کو آتی ہے غم نہیں جاتا کسی کو ملنا ہو اس سے تو خود ہی چل کر جائے کہ اپنے آپ کہیں وہ صنم نہیں جاتا نشانہ اس کا ہمیشہ نشاں پہ لگتا ہے گو دل کے پار وہ تیر ستم نہیں جاتا ہم اپنے دائرۂ کار ہی میں رہتے ہیں نکل کے اس سے یہ باہر قدم نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اس راز کے باطن تک پہنچا ہی نہیں کوئی

    اس راز کے باطن تک پہنچا ہی نہیں کوئی کیوں لوٹ کے گھر اپنے آیا ہی نہیں کوئی اب شہر کی خاموشی ویرانے سے ملتی ہے آواز لگائی تو بولا ہی نہیں کوئی ہر روز دکھائی دیں سب لوگ وہیں لیکن جب ڈھونڈنے نکلیں تو ملتا ہی نہیں کوئی ہونے سے کہ جن کے تھا بستی کا بھرم قائم اطراف میں شہروں کے صحرا ...

    مزید پڑھیے

    عبث ہی محو شب و روز وہ دعا میں تھا

    عبث ہی محو شب و روز وہ دعا میں تھا علاج اس کا اگر درد لا دوا میں تھا یہ اور بات کہ وہ تشنۂ جواب رہا سوال اس کا مگر گونجتا فضا میں تھا ہمیں خبر تھی کہ اس کا جواب کیا ہوگا مگر وہ لطف جو اظہار مدعا میں تھا یقیں کریں کہ یہیں کوئی جیسے کہتا ہو کہ جو بھی دیکھا سنا تھا وہ سب ہوا میں ...

    مزید پڑھیے

    تھا عبث خوف کہ آسیب گماں میں ہی تھا

    تھا عبث خوف کہ آسیب گماں میں ہی تھا مجھ میں سایہ سا کوئی اور کہاں میں ہی تھا سب نے دیکھا تھا کچھ اٹھتا ہوا میرے گھر سے پھیلتا اور بکھرتا وہ دھواں میں ہی تھا سچ تھا وہ زہر گوارا ہی کسی کو نہ ہوا تلخی ذائقۂ کام و زیاں میں ہی تھا خود ہی پیاسا تھا بھلا پیاس بجھاتا کس کی سر پہ سورج کو ...

    مزید پڑھیے

    مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں گھر کیسے کریں

    مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دل میں گھر کیسے کریں درمیاں کے فاصلے کا طے سفر کیسے کریں کوئی سنتا ہی نہیں عرض ہنر کیسے کریں خود کو ہم اپنی نظر میں معتبر کیسے کریں آخری پتھر سے بے سمت و نشاں جانا ہے اب ہم کھلی آنکھوں سے یہ اندھا سفر کیسے کریں جان کے جانے کا اندیشہ بہت ہے اب کی بار معرکہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    وہ خالی ہاتھ سفر آب پر روانہ ہوا

    وہ خالی ہاتھ سفر آب پر روانہ ہوا خبر نہ تھی کہ سمندر تہی خزانہ ہوا بچھڑتے وقت تھا دل میں غبار اس سے مگر سخن ہی تلخ نہ لہجہ شکایتانہ ہوا ہوا بھی تیز نہ تھی معتدل تھا موسم بھی زمین پاؤں کے نیچے تھی اک زمانہ ہوا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2