راہ گم کردہ سر منزل بھٹک کر آ گیا
راہ گم کردہ سر منزل بھٹک کر آ گیا
صبح کا بھولا تھا لیکن شام کو گھر آ گیا
جیسے اس کو روک سکنا اپنے بس میں ہی نہیں
جب بھی چاہا بے اجازت گھر کے اندر آ گیا
بھاگ کر جائیں کہاں اب تو ہی کچھ تدبیر کر
سامنے اپنے سمندر سر پہ لشکر آ گیا
اس نے کوشش تو بہت کی سر بچانے کی مگر
جس طرف سے تھا نہیں اندیشہ پتھر آ گیا
ہم نہ کہتے تھے کہ فرخؔ آدمی اچھا نہیں
دیکھ تجھ کو بھی یقیں اب اس سے مل کر آ گیا